پارلیمان میں تقریر ی مقابلے

177

گزشتہ دنوں عدالت عظمیٰ سے یہ سوال سامنے آیا تھا کہ ملک کو پارلیمان کے ذریعے چلاناہے یا خفیہ طاقتوں کے ذریعے ؟ اس کا کوئی واضح جواب توسامنے نہیں آیا لیکن بلاول زرداری سمیت کچھ سیاست دانوں نے خفیہ طاقتوں کے حوالے ضرور دیے ہیں۔ مثلاً یہ کہنا کہ عمران خان منتخب وزیر اعظم نہیں بلکہ بعض طاقتوں کے ’’سلیکٹڈ‘‘ ہیں۔ یہ تاثر پیدا کیا جارہا ہے کہ عمران خان عوام کے ووٹ سے نہیں آئے جب کہ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اسے ایک کروڑ 70 لاکھ ووٹ ملے ہیں۔ لیکن ان کے مخالفین کے ووٹ یکجا کیے جاتے تو وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ یہ نظام انتخاب کی خرابیوں میں سے ایک خرابی ہے۔ ووٹ کئی جماعتوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں اور ان میں سے جس نے دوسروں سے زیادہ ووٹ لے لیے وہ کامیاب قرار دیا گیا خواہ اس کے خلاف مجموعی ووٹوں کی تعداد زیادہ ہو۔ فرض کیجیے کہ 100ووٹ ہیں۔ ایک جماعت 30ووٹ لیتی ہے اور باقی 70 ووٹ چار حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں تو 30ووٹ لینے والا جیت جائے گا خواہ باقی 70 ووٹ اس کے خلاف ہوں۔ جب تک یہ نظام نہیں بدلا جائے گا، اقلیت اکثریت پر حکمرانی کرتی رہے گی۔ جماعت اسلامی پاکستان کب سے متناسب نمائندگی کا مطالبہ کررہی ہے لیکن کسی نے کان نہیں دھرے۔ جب تک ایسا نہ ہو پارلیمان یوں ہی چلتی رہے گی اور اس کو چلانے والی طاقتیں اپنی مرضی چلاتی رہیں گی۔ لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ ہماری پارلیمان، قومی اسمبلی اور سینیٹ کیا کررہی ہیں۔ کچھ عرصے سے یہی دیکھنے میں آرہا ہے کہ پارلیمانی ایوان ’’ڈیبیٹنگ سینٹر‘‘ بن گئے ہیں۔ خوب دھواں دھار تقریریں ہوتی ہیں۔ ایک دوسرے کو چور، ڈاکو کہا جاتا ہے اور الزامات کا مقابلہ ہوتا ہے۔کہا تو یہ جاتا ہے کہ پارلیمان کا کام قوانین وضع کرنے یا ان میں ترمیم و تنسیخ کرنا ہے مگر ایسا ہو نہیں رہا۔ ہر اجلاس گرجنے، برسنے اور طلاقت لسانی کا مظہر ہوتا ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی ہو یا چیئرمین سینیٹ ،ارکان کو خاموش کرانے کی ناکام کوشش کرتا نظر آتا ہے یا تقریر کے الفاظ حذف کروا دیتا ہے جو عوام تک براہ راست پہنچ چکے ہیں اور ان کو ریکارڈ سے نکلوانا بے معنی ہو جاتا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کی صلاحیتوں کا کیا ذکر کرنا، ن لیگ کے مشاہد اللہ خان بھی کسی سے کم نہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ ’’ یہ صدا گنبد کی ہے، جیسا کہو ویسا سنو‘‘۔ حکمرانوں کا پورا زور الزامات لگانے اور حزب اختلاف کا جواب دینے پر صرف ہو رہاہے۔ تحریک انصاف کا ہر روکن عمران خان کی سنت پر عمل پیرا ہے جو ملک سے باہر جاکر بھی اپنے ہر مخالف کو بدعنوان قرار دے کر اعلان کرتے ہیں کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا، ایک ایک کو پکڑوں گا۔ اور حزب اختلاف کہتی ہے کہ یہ انداز تو ڈکٹیٹروں والا ہے۔ پنجاب کے چھوٹے چودھری صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان بھی دوسرے سیاستدانوں کو ’’ٹکے ٹکے کے لوگ‘‘ کہہ کر عزت افزائی کرتے ہیں۔ پتا نہیں وہ خود ’’کتنے ٹکے‘‘ کے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو بھی قومی اسمبلی میں الزامات کے تبادلے کا منظر چھایا رہا۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے عمران خان کی بہن علیمہ خان کی بیرون ملک جائداد کا مسئلہ اٹھایا اور ان سے طے کردہ معاملات کو این آر او قرار دیا۔ علیمہ خان نے پلی بارگین کرلیا ہے۔ اپنی بہن کا معاملہ عمران خان کے لیے ضرور مسئلہ بنے گا جو پہلے ہی کئی سنگین مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ قومی اسمبلی میں یہ الزام بھی سامنے آیا کہ نیب اپنی حوالات میں تشدد کررہی ہے اور قیدیوں سے مرضی کا بیان حاصل کرنے لیے ان پر منشیات استعمال کی جارہی ہیں۔ اس حوالے سے کوکین اور چرس کا ذکر بھی آیا جو معنی خیز ہے۔ ن لیگ کے سعد رفیق کے ایک مبینہ فرنٹمین اس وقت نیب کی حراست میں ہیں اور خبریں یہ ہیں کہ وہ وعدہ معاف گواہ بننے پر تیار ہیں۔ سعد رفیق نے اس حوالے سے کہا ہے کہ نیب کے زیر حراست لوگوں سے مرضی کا بیان حاصل کرنے کے لیے منشیات استعمال کرائی جارہی ہیں تاکہ ان کی قوت مدافعت ختم ہو جائے۔ اگر ایسا ہے تو اس کا آسان طریقہ ہے کہ ایسے لوگوں کا طبی معائنہ کرا لیا جائے۔ لیکن دوسری طرف سے یہ کہا جارہا ہے کہ مذکورہ شخص تو پہلے ہی منشیات استعمال کرتا رہا ہے جس کا علم سعد رفیق کو بھی ہوگا۔ ان معاملات پر پارلیمانی کمیٹی بنانے کا فیصلہ ہوا ہے مگر کیا یہ تقریری مقابلے چلتے رہیں گے اور کام کچھ نہیں ہوگا۔ حزب اختلاف تو ہمیشہ ہی حکومت پر تنقید کرتی رہی ہے مگر اس سلسلے کو روکنے کے لیے حکمرانوں خاص طور پر وزیر اعظم کو زیادہ احتیاط سے کام لینا ہوگا اور محض الزام تراشیوں پر اکتفا نہ کریں۔ بدعنوانی یقیناًایک ناسور ہے اسے ضرور ختم کیا جائے مگر یہ کام سنجیدگی کا متقاضی ہے، اپنے سوا سب کو چور، ڈاکو کہنے سے بات نہیں بنے گی۔ عدالت عظمیٰ بھی یہ کہہ رہی ہے کہ ملک کو پارلیمان کے ذریعے چلایا جائے۔ اگر کوئی مقتدر قوت پشت پر ہے تو اسے کندھے جھٹکنے میں دیر نہیں لگے گی۔ جب جب ایسا ہوا ہے عوام اپنے گھروں میں ہی رہے ہیں۔