ٹی ایل پی کے خلاف کریک ڈاؤن

142

حکومت نے تحریک لبیک کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن شروع کردیا ہے۔ خادم حسین رضوی سمیت کئی اہم رہنما 30 روز کے لیے نظر بند کردیے گے۔ حتیٰ کہ معروف عالم دین مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمن کو بھی نظر بند کردیاگیا۔ وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے صاحب نے وضاحت کی ہے کہ حکومت نے تحریک لبیک سے عہد شکنی نہیں کی ہے۔ ٹی ایل پی قائدین کو لاہور سے فیض آباد آنے سے منع کیا تھا۔ انہوں نے ہماری بات ماننے سے انکار کردیا۔ اتنی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آپریشن اب کیوں کیا گیا جب دھرنے کے موقع پر مذاکرات ہوئے تو اس وقت پتا نہیں تھا کہ ٹی ایل پی نے ان کا حکم نہیں مانا۔ اب جب کہ عدالت نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تو حکومت نے اگلے ہی دن آپریشن شروع کردیا۔ کیا حکومت کو بتادیا گیا ہے کہ فیصلہ ٹی ایل پی رہنماوں کے خلاف آنے والا ہے یا پھر کسی اور قوت کے کہنے پر آپریشن ہوا ہے۔ وفاقی حکومت کے ترجمان وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہاہے کہ خادم رضوی حفاظتی نگرانی میں ہیں ان کو محفوظ مقام پر مہمان بناکر پہنچایا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر انہوں نے فیض آباد نہ آنے کی ہدایت تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا تو یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ کیا مقدمہ فیض آباد آنے پر بنایا گیا تھا۔ جو کچھ دھرنے کے دوران کیا گیا تھا وہ درست ہے تو اس پر کارروائی کریں اگر حکومت کو عدالت کا فیصلہ مل چکا ہے اور اس کی روشنی میں گرفتاری کی گئی ہے تو یہ بھی ایک سوال ہے کہ عدالتی فیصلے بھی اعلان سے قبل حکومت کے پاس کیونکر پہنچ گئے۔ بہر حال یہ معاملہ وہی ہے جس کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے سربراہ سے برطانیہ میں بھی سوال کرلیا گیا تھا کہ عدالت عظمیٰ اور افواج کے سربراہ کو گالیاں دینے والوں کے خلاف تو کارروائی نہیں ہورہی۔ اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ دو ایک دن میں آپ کے سامنے آجائے گا۔ اگلے دن فیصلہ محفوظ ہونے کی اطلاع ملی لیکن اس کے اگلے روز آپریشن شروع ہوگیا معاملہ یہ نہیں ہے کہ کیا آپریشن کیوں کیا جارہاہے۔ غلط ہے یا درست۔ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کو معاہدہ کرتے وقت اس غلطی کاعلم نہیں تھا۔ حکومت نے فیصلے کے اعلان سے قبل کیسے یہ اقدام کرلیا۔ پھر اس پر عمل در آمد میں کسی کا لحاظ نہیں۔ مفتی منیب الرحمن کو بھی لپیٹ میں لے لیا گیا ہے۔ معاملات واضح نہیں ہیں۔ کیا فیصلہ محفوظ نہیں رہا۔