عاصمہ حدیدکی ہفوات

288

 

حصہ اول

پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی عاصمہ حدید نے اپنے آپ کو ایک دانشور کی حیثیت سے پیش کرتے ہوئے اسلام کے مسلّمات پر اپنی زبان کا تیشہ چلایا اور قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہوکر مَن پسند تشریحات کیں۔ خدا معلوم کہ یہ پی ٹی آئی کی پالیسی ہے یا ان کے اپنے افکارِ فاسدہ ہیں۔ میں نے وزیرِ اعظم عمران خان سے کہا تھا: حساس مذہبی امور پر بات کرنے کے لیے وفاقی وزیر مذہبی امور ڈاکٹر نورالحق قادری کو مقرر کریں اور اپنے اراکین پارلیمنٹ کو پابند کریں کہ وہ دین کو بازیچۂ اطفال نہ بنائیں، اپنی دانش کے جوہر لٹانے کے لیے کوئی اور مَن پسند شعبہ تلاش کریں۔ لیکن شاید انہوں نے ابھی تک اپنی پارٹی کے اراکین کے لیے کوئی رہنما اصول جاری نہیں کیے۔ ذیل میں ہم محترمہ کے قومی اسمبلی میں خطاب کا متن پیش کر رہے ہیں، کیوں کہ بعد میں لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہماری بات سیاق وسباق کے بغیر پیش کی جارہی ہے، سو اُن کے فرمودات مِن وعَن ملاحظہ کیجیے:
’’میں نے صرف آپ کی توجہ دو چیزوں پر کروانی ہے جو صبح سے سن رہی تھی اور میں نے وہ اس لیے کروانی ہے کہ جو میں نے قرآن سے سیکھا، وہ مجھے کچھ آج تھوڑا سا لگا کہ وہ مجھے بتا دینا چاہیے کہ شاید زندگی کا پتا نہیں ہے، آج ہے کل نہ ہو۔ میں نے قرآن سے یہ سیکھا کہ محمد ؐ جب نماز پڑھ رہے تھے، اس دوران اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ اب تم خانہ کعبہ کی طرف منہ کرلو، ان کا پہلے جو منہ پڑھ رہے تھے نمازیں وہ یروشلم کی طرف تھیں یعنی کہ مسجد اقصیٰ، اور محمد ؐ اتنے Kind اور اتنے دنیا کے بہترین شخص ہیں جو آج تک نہیں ہیں اور ہم ان کو میرا خیال ہے سمجھ نہیں سکے اور ہم نے ان کو Present بھی اچھے طریقے سے نہیں کیا جو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ حضور ؐ نے جب نماز صلوٰۃ شروع کروائی تو سب سے پہلے انہوں نے خانہ کعبہ کی طرف منہ کیا لیکن جب یہودیوں نے بہت اس طرح کیا تو ان یہودیوں کو خوش کرنے کے لیے انہوں نے نماز جو تھی، یروشلم کی طرف منہ کر کے کردی اور جب یہ حکم آگیا کہ آپ ابھی آج سے منہ خانہ کعبہ کی طرف کرلیں تو مجھے یہ سمجھ آئی ہے کہ سوہنے ربّ نے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے مسلمانوں کے درمیان اور یہودیوں کے درمیان یہ فیصلہ اُسی قرآن کی Verse میں ہوگیا ہے، میرا علم تھوڑا ہوگا، میں نے ہسٹری پڑھی، لیکن میں اپنے اللہ سے ڈر کے اور اللہ کی محبت میں یہ کہہ رہی ہوں کہ اس نے یہ فیصلہ وہیں مسلمانوں کی آسانی کے لیے کردیا کہ جو یہودی ہیں ان کا کعبہ جو ہوگا وہ یروشلم ہے مسجد اقصیٰ اور مسلمانوں کا کعبہ، کعبہ جو عرب میں ہے، تو یہاں پہ جو پہلی بات ہے مسلمانوں اور یہودیوں کی لڑائی اس میں ختم ہوجانی چاہیے اور حضور ؐ نے بھی کہا تھا، حضرت علی نے بھی کہا تھا کہ اپنے دشمن کو دوست بنالو اور سب سے بہترین مثال حضور ؐ نے دی جن کو یہودیوں کو ان کے ساتھ مل کے کام کیا اور اس کے بعد ہم دوسری بات میں یہ بھی دیکھتی ہوں کہ ہم اتنا یہودیوں کے نام پر ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہیں اور اتنا ہم ڈی گریڈ کرتے ہیں، جب ہم نماز پڑھتے ہیں مسٹر اسپیکر، اس میں ہم درود پڑھتے ہیں اور درود میں ہم ساری آل کو دعائیں دیتے ہیں، آل ابراہیم کی جس میں ابراہیم علیہ السلام کے اسحاق، اسحاق علیہ السلام ایک جو ہیں یہودی کا کلام ہے اور ایک کرسچین کا کلام ہے اس طرح ہم سب ایک ہیں، تو ہم نماز میں بھی ان کو دعائیں دیتے ہیں، لیکن میں یہ سمجھتی ہوں کہ حضور ؐ نے ہمیں جو سکھایا تھا، ہم اس کی Representation بہت غلط طریقے سے کر تے ہیں، جس طرح ہمارے مولانا بھائی بول رہے تھے اور جس طرح ہم، یہ تو بہت بڑی ڈیوٹی ہے کہ آپ ایک Turban (پگڑی) پہن کر اور اس کے بعد بہت داڑھی اتنا معجزانہ رکھ کے اور آپ حضور ؐ کی کیا کہتے ہیں کہ راہ پر لوگوں کو لانے کے لیے تو وہ بہت تکلیف دہ بات تھی، میں صرف یہ کہنا چاہتی تھی کہ اگر یہ کہنا چھوڑ دیں ہم اور کچھ تسلی کہ آجائیں اسی پر آجائیں اور آخری بات میں کہہ رہی تھی کہ حضور ؐ بھی تو بنی اسرائیل سے تھے، سو اگر ہم تھوڑا اس پہ سب سوچ لیں کہ کوئی ایسا طریقہ ہوسکتا ہے کہ ہم مسلمان جو دنیا میں کٹ مر رہے ہیں برے طریقے سے بچے سیریا میں یمن میں جو حشر ہورہا ہے، کوئی ایسا طریقہ کرسکتے ہیں ہمارے بھائی جنہوں نے یہ لے لیا ہے ذمے داری لے لی ہے اللہ کے راہ پر لانے کے لیے، کسی طریقے سے ان مسلمانوں کو اللہ کی کوئی بھی قرآن کی کوئی بھی Verse نکال لیں جس میں مسلمان اور یہ سب جڑ سکتے ہوں، خدا کے لیے وہ کچھ کرلیں تو انسان امن میں آجائے گا، یہ جو پہلا قصہ ہوا ہے مجھے یہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو چنا ہے کہ دنیا میں، دنیا میں امن اور پیس بنانے کے لیے اب ساری دنیا کی نگاہیں ادھر آگئی ہیں، سو میں اپنے کولیگ اور اپنے بہن بھائیوں سے کہنا چاہتی ہوں کہ اس پہ سوچیں اور مسلمانوں کو کٹ مرنے اور جس طرح مسلمانوں کا اور بچوں کا خون کیا جارہا ہے کسی پہ بھی آجائیں جیسے محمد ؐ نے بہت ساری Treaties بنائی تھیں یہودیوں کے ساتھ، آپ بھی کوئی اس پہ سوچیں تاکہ ہمارے مسلمان بچے اور عورتیں جس طرح ظلم ہورہا ہے وہ کسی طریقے سے بچ جائیں‘‘۔
محترمہ عاصمہ حدید نے نبی کریم ؐ پر بہتان باندھا ہے: ’’آپ نے یہود کو خوش کرنے کے لیے پہلے بیت المقدس کو قبلہ بنایا اور پھر العیاذ باللہ! سودے بازی کر لی کہ چلیے! تم بیت المقدس کو قبلہ بنالو اور ہم بیت اللہ کو قبلہ بنالیتے ہیں‘‘۔
رسول اللہ ؐ کے بارے میں یہ ریمارکس دینا کہ آپ دین میں مداہَنت اور سودے بازی کے قائل تھے، انتہائی درجے کی ضلالت اور جہالت ہے، قرآن میں تو کفار اور یہود کے ساتھ دین کے بارے میں مداہَنت اور مفاہمت یعنی سودے بازی کی صریح نفی فرمائی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (1): ’’اور وہ (کفار) چاہتے ہیں کہ آپ (دین کے معاملے میں) اُن سے بے جا رعایت برتیں اور وہ بھی (اس کے عوض) آپ کو کچھ رعایت دے دیں، (القلم:9)‘‘۔ (2) سورۃ الکافرون تو خاص اس موضوع پر ہے کہ دین کے معاملے میں کفار کے ساتھ کوئی مفاہمت نہیں ہوسکتی، قارئین کرام اس سورت کا ترجمہ پڑھ لیں۔
امام محمد بن یوسف صالحی شامی لکھتے ہیں:
’’جب جناب ابوطالب رسول اللہ ؐ کی مدافعت میں استقامت کے ساتھ کھڑے رہے، تو قریش کے کچھ لوگ اُن کے پاس گئے اور کہا: آپ کے بھتیجے ہمارے خداؤں کو برا کہتے ہیں، ہمارے دین میں عیب نکالتے ہیں، ہمیں بے وقوف اور ہمارے آباؤاجداد کو گمراہ کہتے ہیں، اس لیے آپ یا تو انہیں روکیں، ورنہ درمیان سے ہٹ جائیں، ہم ان سے نمٹ لیں گے، جناب ابوطالب نے انہیں حکمت سے ٹال دیا۔ قریش پھر جناب ابوطالب کے پاس آئے اور کہا: آپ بزرگ ہیں، ہمارے نزدیک آپ کا بڑا مرتبہ ہے، ہم نے آپ کو بھتیجے کی حمایت سے بہت روکا، لیکن آپ نہ رکے، اب ہم اپنے خداؤں کی توہین برداشت نہیں کریں گے، آپ انہیں روک دیں یا ہماری آپ سے فیصلہ کُن جنگ ہوگی۔ جناب ابوطالب اس پر سخت رنجیدہ ہوئے اور انہوں نے نبی ؐ سے کہا:
بھتیجے! تمہاری قوم کے لوگ میرے پاس آئے اور یہ کہا، پس آپ مجھ پر اور اپنے آپ پر ترس کھائیں اور مجھے میری بساط سے زیادہ مشکل میں نہ ڈالیں۔
عتبہ نے نبی کریم ؐ کو مخاطب کر کے کہا: اگر آپ کو مال کی ضرورت ہے تو ہم آپ کو اتنا مال جمع کر کے دے دیتے ہیں کہ آپ قریش کے مال دار ترین شخص بن جائیں گے، اگر آپ کو کسی عورت سے شادی کرنا ہو تو ہم قریش کی دس حسین ترین عورتوں سے آپ کی شادی کرادیتے ہیں اور اگر آپ کو بادشاہت کا شوق ہے تو ہم آپ کو بادشاہ بنا لیتے ہیں، مگر اس دعوائے نبوت سے باز آجائیں۔ اس پر رسول اللہ ؐ نے ابوطالب سے فرمایا: چچا جان! اللہ کی قسم! اگر یہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ میں لاکر رکھ دیں کہ میں اپنا مشن چھوڑ دوں، تو میں ہرگز نہ چھوڑوں گا تاوقتیکہ اللہ اپنے دین کو غالب کردے یا میری جان اس راہ میں قربان ہوجائے، (سبل الھدیٰ والرشاد، ج:2، البدایہ والنہایہ، ملخصاً بتصرف)۔
محترمہ نے نبی کریم ؐ پر یہ الزام لگایا: ’’آپ نے مدین�ۂ منورہ میں یہودیوں کو خوش کرنے کے لیے بیت المقدس کی طرف نمازیں پڑھیں‘‘، جبکہ قرآنِ کریم شہادت دیتا ہے کہ رسول اللہ ؐ کی ہمیشہ سے تمنا تھی کہ آپ اور آپ کی امت کا قبلہ آپ کے اجدادِ اعلیٰ سیدنا ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کا مکۂ مکرمہ میں بنایا ہوا بیت اللہ بن جائے، آپ ؐ وحیِ ربانی کے انتظار میں اپنا چہرہ آسمان کی طرف پلٹ کر دیکھتے رہتے کہ شاید تحویلِ قبلہ کا حکم نازل ہو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
باقی صفحہ7نمبر1
مفتی منیب الرحمن
’’بے شک ہم آپ کے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں، پس ہم آپ کو ضرور اُسی قبلے کی جانب پھیر دیں گے، جو آپ کو پسند ہے، سو آپ اپنا رخ مسجدِ حرام کی جانب پھیر دیجیے اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو (نماز ادا کرتے وقت) اپنا رخ مسجدِ حرام کی طرف پھیر لو، (البقرہ: 144)‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے تحویلِ قبلہ کی حکمت بھی بیان فرمائی: ’’اور اے رسول!) آپ پہلے جس قبلے پر تھے، اُسے ہم نے اس لیے مقرر فرمایا تھا تاکہ (تحویلِ قبلہ کے موقع پر) ظاہر کردیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے (اور) کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، (البقرہ: 143)‘‘۔ عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ قبلہ اُس کی پسند کا ہونا چاہیے جس کی عبادت کی جائے، لیکن اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیا: عبادت میری کی جائے گی، مگر قبلہ اُس کے رسولِ مکرم ؐ کی پسند کا ہوگا، یہ عظمتِ مصطفی ؐ کی معراج ہے، کسی نے سچ کہا:
ہزار کعبے، ہزار قبلے، انہی کے نقشِ پا کے صدقے
وہ جس طرف سے گزر گئے ہیں، اسی کو کعبہ بنا کے چھوڑا
(نوٹ: یہ کالم 20نومبر 2018کو لکھا گیا۔)