اقتدار کی رادھا!

168

دستک کی آواز سن کر ہمیں بے نام سی خوشی ہوئی۔ آواز اتنی مدھم اور پُرسکون تھی کہ ہمارے ہاتھ سے قلم گرا، نہ ہم پر اُچھلاہٹ کا دورہ پڑا، ہم نے بیٹھک کا دروازہ کھولا تو ایک نوجوان کو اپنا منتظر پایا۔ ذہانت اس کی آنکھوں سے جھلک رہی تھی اور لبوں پر تبسم مچل رہا تھا۔ ’’کیسے آنا ہوا، جوان۔ ایک کلپ پر آپ کا تبصرہ درکار ہے۔ اس نے موبائل آن کیا ہمیں کلپ دکھائی اور کہا، سر! اس کا مطلب کیا ہے؟ کلپ میں ایک بندر بائیک چلا رہا تھا اور ایک وردی پوش جوان بائیک کا ہینڈل سنبھالے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا۔۔۔ تم نے دیکھا تو نہیں ہوگا مگر سنا ضرور ہوگا کہ بیل گاڑی کے نیچے ایک کتا چل رہا ہوتا ہے اس کی چال ڈھال سے یہ گمان گزرتا ہے جیسے کتے کو یقین ہو کہ وہ بیل گاڑی چلا رہا ہے۔ بائیک پر بیٹھا ہوا بندر بھی اس گمان میں مبتلا ہے کہ وہ بائیک چلا رہا ہے۔ اور یہ فوجی جو ہینڈل سنبھالے ہوئے ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو بیان کرنے اور ان کی وضاحت کرنے سے بے معنی ہوجاتی ہیں سو، ان کو ان کہی کے دائرے ہی میں رکھنا بہتر ہوتا ہے۔ کلپ میں جو کچھ دکھایا جارہا ہے حالات حاضرہ اس کی وضاحت کررہے ہیں سو، ان پر تبصرہ بے معنی اور لاحاصل ہے۔
سر! ایک اور عرض ہے۔ نوجوان کی عاجزی قابل دید تھی۔ کہو کیا کہنا چاہتے ہو۔ ان دنوں ڈونکی کنگ کا بڑا چرچا ہے اکثر فلم بینوں کا کہنا ہے کہ یہ اعلیٰ درجے کی سیاسی فلم ہے۔ ہماری جمہوریت اور سیاست پر انتہائی خوب صورت اور قابل غور موضوع پر اہم فلم ہے مگر کھل کر کوئی تبصرہ نہیں کررہا ہے۔ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ کئی عشروں کے بعد ایک خوب صورت، بامعنی اور سبق آموز فلم دیکھی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ فلم بین طبقہ اور شیخ رشید کہنا کیا چاہتے ہیں۔ نوجوان جو کچھ کہلوانا چاہتا تھا ہم اچھی طرح سمجھ رہے تھے۔ دیکھو! جوان تمہاری باتیں بہت معنی خیز ہیں ہم نے یہ فلم نہیں دیکھی ہے اس لیے کوئی تبصرہ کرنے سے قاصر ہیں اور جہاں تک شیخ صاحب کا تعلق ہے تو صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر حکمران طبقہ شاعری اورا دب کی تھوڑی بہت بھی سوجھ بوجھ رکھتا تو جیلیں عدالتوں کے کمروں کی طرح کھچا کھچ بھری ہوتیں اور حاکم وقت چیف جسٹس پاکستان کی طرح ارشاد کرتا کہ حکومتی رٹ کا حق ادا نہ کرنے والوں کا احتساب ہوگا، حکومت کی طاقت کے سامنے سرنگوں نہ ہونے والوں کو تھانے میں بلا کر جواب طلب کیا جائے گا، عوامی دائرے سے تجاوز کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا، کسی کو معافی نہیں ملے گی، مفاہمت کا دور گزر چکا ہے۔ گویا شاعر اور ادیب تازہ ہوا میں سانس لینے کو ترس جاتے۔
اچھا! یہی بتا دیں کہ فلم میں ’’راجا ڈونکی‘‘ کون ہے؟۔ راجا ڈونکی کو سبھی پہچانتے ہیں۔ ’’اب بجے گا باجا‘‘ کا مطلب بھی بہت واضح ہے۔ اسی طرح دیگر استعاروں کے ذریعے جو کچھ کہنے کی کوشش کی گئی ہے وہ انتہائی واضح ہے۔ ’’ڈونکی کنگ‘‘ ایسی علامتی فلم نہیں جس کے معنی تخلیق کار ہی جانتا ہے یا پھر ناقدین اس کا پوسٹ مارٹم کرکے قارئین کو مفہوم سمجھانے کی کاوش کرتے ہیں تب کہیں جا کر تھوڑا بہت مطلب سمجھ میں آتا ہے۔ ہم نے ڈونکی کنگ تو نہیں دیکھی اس لیے جامع اور تفصیلی گفتگو نہیں کرسکتے۔ مگر ڈونکی کنگ کا یہ کہنا کہ وہ ریاست کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اُٹھانے کے لیے تیار ہے مگر وزن تیس کلو سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ وطن عزیز جیسے ممالک کی بدنصیبی یہی ہے کہ بڑی طاقتیں اقتدار کا جھانسا دے کر اپنے احکامات کی تعمیل پر مجبور کرتی ہیں اور پھر ڈومور کی جہنمی صدا قوت سماعت کو اس حد تک مجروح کردیتی ہیں کہ حکمران طبقہ عوام کی چیخیں سننے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ مقتدر قوتوں سے یہ کہتے کہتے نڈھال ہوجاتا ہے کہ بندہ پرور! آپ نے یقین دلایا تھا کہ حکومت کا وزن تیس کلو سے زیادہ نہیں ہوگا اور پھر اقتدار کی رادھا کو منانے کے لیے نومن تیل بھی نہیں رہتا۔