عاصمہ حدیدکی ہفوات

301

تحقیق یہ ہے کہ نبی کریم ؐ مکی زندگی میں بھی بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے، لیکن حرمِ پاک میں ایسی جگہ کھڑے ہوتے تھے کہ بیت اللہ بھی سامنے رہے اور بیت المقدس کی طرف بھی رخ رہے، یعنی یہ نہیں کہ مدینہ منورہ جاکر یہود کو خوش کرنے کے لیے رسول اللہ ؐ نے مصلحت کے تحت بیت المقدس کو قبلہ بنا لیا ہو، آپ کا ہر فعل اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہوتا تھا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے، ان کا فرمان وہی ہے جو انہیں وحی کی جاتی ہے، (النجم: 3-4)‘‘۔ محترمہ نے ایک اور تحریف کی اورکہا: ’’حضور ؐ بھی تو بنی اسرائیل سے تھے‘‘۔ آپ ؐ نے اپنا نسب خود بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ بنی اسماعیل سے ہیں:
’’واثلہ بن اسقعؓ بیان کرتے ہیں : میں نے رسول اللہ ؐ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ نے اولادِ اسماعیل میں سے کِنانہ کو چن لیا اور کنانہ کی اولاد سے قریش کو چن لیا اور قریش میں سے بنو ہاشم کو چن لیا اور بنو ہاشم میں سے مجھے چن لیا، (مسلم)‘‘۔ (2) انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اور (از آدم وحوا علیہما السلام تا ابوین کریمین) بنی آدم میں جب بھی دو گروہ بنے، اللہ نے مجھے اُن میں سے بہترین میں رکھا، میں اپنے نسب کی ہر پشت میں ایسے ماں باپ سے پیدا ہوا (جن کا رشتہ نکاحِ صحیح سے قائم ہوا تھا)، سو عہدِ جاہلیت کی کوئی خرابی مجھے نہیں پہنچی اور (میرے تمام آباء واجداد) نکاحِ صحیح سے پیدا ہوئے، آدمؑ سے لے کر میرے سلسلۂ نسب میں کوئی ایسی کڑی نہیں ہے کہ جن کا تعلق حرام طریقے سے قائم ہوا ہو، یہاں تک کہ (نسب کی پاکیزگی) میرے ماں باپ تک قائم رہی، سو میں تم سب سے بہترین انسان ہوں، (دلائل النبوۃ)‘‘۔ الغرض نبی کریم ؐ اولادِ ابراہیم میں تو یقیناًہیں، لیکن بنی اسماعیل میں سے ہیں، بنی اسرائیل میں سے نہیں ہیں، بنی اسرائیل سیدنا یعقوب ؑ کی اولاد کو کہا جاتا ہے۔
محترمہ نے ایک بات کہی: ’’ہم نماز میں آلِ ابراہیم پر درود بھیجتے ہیں‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس سے ان کی مراد موجودہ یہود ونصاریٰ ہیں۔ موجودہ یہود ونصاریٰ ہرگز اس کے مصداق نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور ہم نے فرعونیوں کو غرق کردیا اور تم دیکھ رہے تھے، (البقرہ: 50)‘‘۔ یہاں قرآنِ کریم میں ’’آلِ فرعون‘‘ کے کلمات آئے ہیں، امام طبری اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’فرعون مصر کے بادشاہ کا لقب تھا، جیسے روم کے بادشاہ کا لقب قیصر تھا، قرآنِ کریم میں جس فرعون کا ذکر ہے، اس کا نام ولید بن مصعب تھا اور آلِ فرعون سے مراد فرعون کی قوم، اس کے ہم مذہب اور پیروکار ہیں، (تفسیر طبری)‘‘۔ فرعون کے بارے میں تو آیا ہے کہ وہ بے اولاد تھا، اس لیے جب سیدنا موسیٰ ؑ ولادتِ باسعادت کے بعد اللہ کی تدبیر سے فرعون کے محل میں پہنچائے گئے، تو اس موقع کی بابت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور فرعون کی بیوی نے کہا: یہ میری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، شاید یہ ہمیں نفع دے یا ہم اسے بیٹا بنالیں اور وہ (اللہ کی تدبیر) سے بے خبر تھے، (القصص: 9)‘‘۔ نیز فرمایا: ’’اور یاد کیجیے! جب ابراہیم کو ان کے ربّ نے چند باتوں میں آزمایا، تو وہ اس آزمائش پر پورا اترے، اللہ نے فرمایا: میں تمہیں سارے انسانوں کا امام بنانے والا ہوں، ابراہیم نے کہا: اور میری اولاد سے بھی، فرمایا: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا، (البقرہ: 124)‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ انبیائے کرام کے حقیقی اہل وہی ہیں جوان کے دین پر ہیں اور وہی امامت کے بھی حق دار ہیں، صرف نسبی رشتہ اس بات کا ضامن نہیں ہے کہ کوئی شخص کسی نبی کی دینی وراثت کا امین بن جائے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور نوح نے اپنے رب کو پکارا اورکہا: اے میرے پروردگار! بے شک میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بڑا حاکم ہے، فرمایا: اے نوح! بے شک وہ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے، کیوں کہ اس کا عمل خراب ہے، (ہود: 45)‘‘۔ الغرض پسرِ نوح کو اُن کی بدعملی کی وجہ سے سیدنا نوح ؑ کی نسبت سے محروم کردیا گیا، لہٰذا نماز میں جو ہم آلِ ابراہیم پر درود بھیجتے ہیں، موجودہ یہود ونصاریٰ اس کا مصداق نہیں ہیں، کیوں کہ وہ ملّت ابراہیمی سے منحرف ہوچکے ہیں، اب اس کا مصداق صرف امتِ مسلمہ ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی، بلکہ وہ ہر باطل سے یکسو ہوکر مسلمان تھے اور مشرکین میں سے بھی (نہیں) تھے، بے شک ابراہیمؑ سے نسبت کے زیادہ حق دار وہ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی اور یہ نبی مکرم اور جو ان پر ایمان لائے اور اللہ اہل ایمان کا مددگار ہے، (آل عمران 67-68)‘‘۔
محترمہ عاصمہ حدید نے کہا: ’’مسلمانوں اور یہودیوں میں لڑائی ختم ہوجانی چاہیے، نبی کریم ؐ اور سیدنا علی یہی کہا تھا کہ اپنے دشمن کو دوست بنالو اور یہودیوں کو ڈی گریڈ نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ اُن کا پیغام یہ ہے کہ کافروں کو بھی دوست بنالو، اس کے برعکس یہود ونصاریٰ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فرامین یہ ہیں:
(1)’’اے مومنو! یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو انہیں اپنا دوست بنائے گا، تو وہ یقیناًانہی میں سے ہوگا، بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا، (المائدہ: 51)‘‘۔ (2) ’’اے اہلِ ایمان! مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ، کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تم پر اللہ کی صریح حجت قائم ہوجائے، (النساء: 144)‘‘۔ (3) ’’اور یہود ونصاریٰ آپ سے ہرگز راضی نہیں ہوں گے حتیٰ کہ آپ اُن کی ملت کی پیروی کریں، (البقرہ: 120)‘‘۔ (4) ’’اور اُن پر ذلّت اور خواری مسلّط کردی گئی اور وہ اللہ غضب میں آگئے، یہ اس وجہ سے ہوا کہ وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے، یہ اس لیے (بھی ہوا) کہ وہ نافرمان تھے اور حد سے تجاوز کرتے تھے، (البقرہ: 61)‘‘۔ (5): ’’بے شک آپ جن لوگوں کو مسلمانوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی رکھنے والا پائیں گے، وہ یہود اور مشرکین ہیں، (المائدہ: 82)‘‘۔
یہ واضح ہوچکا ہے کہ دین کے بارے میں مفاہمت اور سودے بازی نہیں ہوسکتی۔ قرآن نے عام زندگی میں بدی کا بدلہ نیکی سے دینے کی تعلیم دی ہے، وقتی اختلاف اور دشمنی مسلمانوں کے درمیان بھی ہوجاتی ہے، اس کی بابت فرمایا: ’’اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہیں، (اے مخاطَب!) بدی کا ازالہ نیکی سے کرو، اس کے نتیجے میں وہ شخص کہ تم میں اور اس میں دشمنی ہے، تمہارا گہرا دوست بن جائے گا، (حم السجدہ: 34) ‘‘۔
محترمہ کی تقریر کا نچوڑ یہ ہے کہ موجودہ یہودیت اسلام کی طرح اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ مذہب ہے، جب کہ قرآن نے اہلِ کتاب کو کافر قرار دیا اور فرمایا: ’’بے شک جنہوں نے کفر کیا، جو اہلِ کتاب اور مشرکین ہیں، وہ ہمیشہ دوزخ کی آگ میں رہنے والے ہیں، وہی تمام مخلوق میں سے بدتر ہیں، (البینہ: 6)‘‘۔ (2)’’بے شک وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا: بلاشبہ اللہ تین میں سے تیسرا ہے، حالاں کہ ایک معبودِ (برحق) کے سوا کوئی مستحقِ عبادت نہیں ہے، (المائدہ: 73)‘‘۔ سیدنا موسیٰ وعیسیٰ ؑ کے عہدِ مبارک میں یا بعد میں خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اللہ ؐ کی بعثت مبارکہ سے پہلے جو لوگ اُن کے دین پر تھے، وہ مسلمان تھے۔ آپ ؐ کی بعثت مبارکہ کے بعد جو لوگ آپ پر اور قرآنِ کریم پر ایمان نہیں لائے، وہ کافر ہیں، قرآنِ کریم نے کفار کی دو قسمیں کی ہیں: (۱) وہ اہلِ کتاب جو آپ ؐ پر ایمان نہیں لائے، یعنی یہودی اور مسیحی (۲) کفارِ محض اور مشرکین۔
انہوں نے مسلمانوں کو یہ مشورہ بھی دیا: ’’قرآن میں کوئی ایسی آیت نکال لیں کہ یہود یوں سے دوستی کی گنجائش نکل آئے‘‘۔ ظاہر ہے کہ بندے اپنی طرف سے تو قرآن میں اضافہ نہیں کرسکتے، لیکن اُن کی خواہش ہے کہ قرآنِ کریم میں کہیں نہ کہیں معنوی تحریف کر کے العیاذ باللہ! اُن کی خواہش پوری کردی جائے۔
پس لازم ہے کہ محترمہ اپنی ان خرافات وہفوات سے پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر توبہ کریں اور معافی مانگیں، کیوں کہ اس دانشِ باطل کا اظہار انہوں نے قومی اسمبلی میں کیا تھا اور اصول یہ ہے کہ جس فورم پر باطل کلمات کہے جائیں، توبہ بھی وہیں پرکی جائے۔ پاکستان میں ایک قاصد اور کلرک کے لیے کسی نہ کسی معیارِ تعلیم کی ضرورت ہے، کسی خاص منصب کے لیے تربیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے، تو وہ لوگ جو پارلیمنٹ میں بیٹھ کر ہمارے ملک کے لیے قانون سازی کرتے ہیں، کیا ان کے لیے کسی تعلیم وتربیت کی ضرورت نہیں ہے، بطورِ خاص جب کہ آئین اس امر کا پابند بناتا ہے کہ قانون سازی قرآن وسنت کے مطابق ہوگی۔ ہمارے بیش تر ارکانِ پارلیمنٹ تو مسودۂ قانون کو پڑھتے ہی نہیں ہیں اور نہ انہیں پتا ہوتا ہے کہ اس میں کیا لکھا ہے، اپنی پارٹی سربراہ کی ہدایت پر ہاں اور نہ کردیتے ہیں۔ پاکستان روئے زمین کا واحد ملک ہے جہاں اٹھارویں آئینی ترمیم پسِ پردہ مرتّب ہوئی اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے ایک دن میں اٹھک بیٹھک کر کے ایک سو ایک ترامیم منظور کرلیں، پارلیمنٹ کا یہی رویہ الیکشن ریفارمز ایکٹ منظور کرتے ہوئے ختمِ نبوت کے حلف نامے کے حوالے سے سامنے آیا۔ ہمارے ہاں منتخب ہونے اور حکومت بنانے کے لیے صرف عددی اکثریت کافی ہے، اس کے لیے کوئی اہلیت اور قابلیت درکار نہیں ہے، جب کہ دعویٰ ہم ریاستِ مدینہ کا کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔
محترمہ نے مولانا بھائی کی لمبی داڑھی اور پگڑی کو بھی معجزے سے تعبیر کیا ہے، العیاذ باللہ تعالیٰ، ویسے وہ تھوڑی سی محنت کریں تو اپنے شوہر نامدار اور صاحبزادے کو بھی مولانا بھائی کی وضع اختیار کرنے پر آمادہ کرسکتی ہیں، ان کی جسارت کا یہ عالم ہے کہ دین میں تحریف کر کے پوری امت کو اپنی من پسند راہ پر ڈالنے چلی ہیں، کوئی بتائے کہ یہ راستہ مدینۂ منورہ کو جاتا ہے یا تل ابیب کو۔