اکرم شیخ کو دھمکیاں

202

سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمے کی پیروی کرنے والے معروف وکیل اکرم شیخ کو مقدمے سے دستبردار ہونے اور ملک چھوڑنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ ان کے اکاؤنٹس بھی منجمد کر دیے گئے ہیں۔ ایک پریس کانفرنس میں اکرم شیخ نے اس کا ذمے دار حکومت کو قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے مجھ سے کہا جارہا ہے کہ ملک چھوڑ دوں‘ میرے محافظ واپس لے لیے گئے ہیں اور اگر ملک نہ چھوڑا تو مشکلات بڑھ جائیں گی۔ اصل بات یہ ہے کہ اکرم شیخ سے مشرف کے خلاف کیس چھوڑنے کو کہا گیا ہے اور بہانہ یہ بنایا گیا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ طالبان آپ کو مار کر پھینک دیں۔ اکرم شیخ نہایت سینئر وکیل ہیں‘ ملکی قوانین اور ریاستی ہتھکنڈوں سے بھی خوب واقف ہیں اس لیے انہوں نے دباؤ میں آنے کے بجائے کہا ہے کہ انتقامی کارروائی بند کی جائے‘ حکومت باز نہ آئی تو اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں کے پاس جاؤں گا۔ ایک وکیل کو کسی مقدمے میں وکالت سے روکنا ویسے ہی جرم ہے جب کہ جنرل پرویز جیسے فرد کے خلاف مقدمے کی پیروی سے روکنا اور بھی غلط ہے‘ جو بغاوت اور آئین شکنی کی کا ملزم ہے۔ اکرم شیخ نے اس حوالے سے براہ راست حکومت کو الزام دیا ہے انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ کس حکومتی شخصیت نے انہیں یہ دھمکی دی ہے لیکن یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ شیخ صاحب کے اکاؤنٹس کس قانون کے تحت منجمد کیے گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے اکاؤنٹس کسی نوٹس کے بغیر منجمد کیے گئے ہیں وکالت بھی نہیں کرنے دے رہے اور اکاؤنٹس بھی استعمال کرنے نہیں دے رہے۔۔۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایف بی آر اور بینکس ایک قانون پسند اور قانون پر عمل کرنے والے شہری کے ساتھ یہ رویہ رکھے ہوئے ہیں۔ حکومتی تضاد بھی قابل توجہ ہے ایک جانب اکرم شیخ سے کہا جارہا ہے کہ آپ کو سیکورٹی خدشات ہیں اور دوسری جانب ان سے سیکورٹی واپس لے لی گئی ہے۔ یہ تو اکرم شیخ ہیں ان کی بات سنی گئی‘ اخبارات نے شائع کردی لیکن پاکستان میں حکومت پی ٹی آئی کی ہو یا کسی کی معاشرے کے ہر باعزت طبقے کے شریف اور قانون پسند لوگوں کو بڑی بے دردی سے رسوا کیا جارہا ہے خواہ وہ محکمۂ تعلیم کا فرد ہو یا صحافت کا۔ اساتذہ کو‘ وائس چانسلرز کو‘ ڈاکٹروں کو جب چاہا گرفتار کرلیا جاتا ہے انداز وہی ہوتا ہے جو منشیات فروشوں اور ڈاکوؤں سے نمٹنے کا ہوتا ہے۔ صحافی نصراللہ چوہدری کو گرفتار کر کے‘ ہتھکڑی لگا کر منہ پر کپڑا ڈال کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ مقدمے کی حیثیت بھی ساری دنیا جانتی ہے۔ معروف ماہر تعلیم انوار احمد زئی‘ گوجرانوالہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر‘ بہاالدین زکریا یونیورسٹی کے وائس چانسلر علقمہ خیرالدین ان سب کو بعض انتظامی غلطیوں کے بہانے مجرم کے طور پر پیش کیا گیا۔ جامعہ پنجاب کے مجاہد کامران جو اگرچہ رنگین مزاجی میں معروف تھے‘ ان کو بھی ہتھکڑی لگا کر پیش کیا گیا۔ شور صرف مجاہد کامران پر مچایا گیا۔ یہ تو چند مثالیں ہیں لیکن دوسری طرف چار سو افراد کی قتل کے ملزم کو وی آئی پی درجہ حاصل ہے۔۔۔ پھر کوئی تکلیف کا مارا کوئی بات زبان سے نکال دے تو غدار‘ ملک دشمن اور سب کچھ ہو جاتا ہے۔ کسی کی عزت محفوظ نہیں۔