کراچی بدلیں مگر۔۔۔

205

 

 

کراچی میں تجاوزات کے خلاف ناقابل یقین آپریشن مسلسل جاری ہے۔ اس کارروائی کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب تک کسی بھی علاقے میں کوئی بڑی مزاحمت نہیں کی گئی حالاں کہ اب تک تقریباً 9 ہزار چھوٹی بڑی دکانیں منہدم کرنے کے نتیجے میں کم و بیش 45 ہزار افراد کا مستقل کاروبار ختم ہوچکا ہے۔ تجاوزات کے خلاف آپریشن سے صرف وہی افراد پریشان نہیں ہورہے جو ان دکانوں پر ملازمت کرتے اور جن کی یہ دکانیں تھیں بلکہ وہ بھی متاثر ہوئے ہیں جو ان دکانوں کے کاروبار سے جڑے ہوئے تھے مثلاً شاپرز، لفافے اور دیگر اشیاء فراہم کرنے والے۔ یہ جواز تو انسانی ہمدردی سے تعلق رکھتا ہے مگر انہیں کیوں ہٹایا گیا اور ان کی وجہ سے کتنے افراد ٹریفک اور دیگر مسائل کا شکار ہوتے تھے اس پر اگر غور کیا جائے تو انسانی ہمدردی کا توازن ان افراد کے حق میں نظر آئے گا جو ان تجاوزات کی وجہ سے یومیہ بنیادوں پر ذہنی کوفت اور جسمانی پریشانی کا سامنا کیا کرتے تھے۔
عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں تجاوزات کے خاتمے اور روڈ ٹریفک قوانین پر عمل کرانے میں وزیراعظم عمران خان اور کے ایم سی کے میئر وسیم اختر کا کردار ہے۔ حالاں کہ سچ بات تو یہ ہے کہ منتخب نمائندوں کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ تجاوزات کے خلاف تاریخی کارروائیوں سمیت دیگر قانونی ایکشن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور پوری عدلیہ کے مختلف احکامات ہیں۔ چوں کہ اس سے قبل اس طرح کی کارروائی پر عمل ہونے سے قبل ہی عدالت سے متعلقہ افراد حکم امتناع لے آیا کرتے تھے یا سیاسی اثر و رسوخ آڑے آجایا کرتا تھا اس لیے اس طرح کا آپریشن ممکن نہیں ہوسکا تھا۔ یہی وجہ ہے 1960 اور اس کے بعد پیدا ہونے والے کراچی کے شہریوں نے ایمپریس مارکیٹ کی عمارت کی اصل شکل پہلی بار اس کے قرب و جوار میں واقع عمر فاروقی مارکیٹ اور دیگر تجاوزات کے خاتمے کے بعد دیکھی۔ ایمپریس مارکیٹ کی عمارت 1884 سے 1889 کے درمیان برطانیہ کے دور حکومت میں تعمیر کی گئی۔ جہاں 1857 کے بعد مقامی باشندوں نے جنگ آزادی انگریزی فوج کے سپاہیوں کو قتل کیا۔ تاریخ میں ذکر ہے کہ 1857 کی جنگ میں انگریزوں کی مخالفت کرنے والے سپاہیوں کے سروں پر گولیاں مارکر کو قتل کردیا گیا تھا اور ان کے سروں کوپھینک دیا گیا تھا۔ انگریز سامراج کو ڈر تھا کہ سپاہیوں کو گولیوں سے اڑانے کی یاد ہمیشہ باقی رہے گی اس لیے انہوں نے اس مقام پر ایمپریس مارکیٹ بنادی تھی۔ اس عمارت کا سنگ بنیاد اس وقت کے گورنر جیمس فرنگیوسن نے 1984 میں رکھا تھا۔ ایمپریس مارکیٹ چار گیلریوں پر مشتمل اور 130 بائی 100 فٹ چوڑی ہے۔ یہاں 280 دکانیں اور اسٹالز بنائے گئے تھے۔ جنہیں تجاوزات کے ضمن میں ہٹادیا گیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مارکیٹ کا نام تبدیل کرکے باب السلام یا ’’باب کراچی‘‘ رکھ دیا جائے۔
خیر ذکر تھا تجاوزات کے خاتمے کا، تجاوزات کو ختم کرنا کیوں کہ بہت اچھا اقدام ہے اس لیے اس کے خلاف کچھ کہنا غیر مناسب امر ہوگا۔ لیکن اگر پورے کراچی کے بجائے صرف مخصوص مقامات سے یہ ہٹائی گئیں اور غیر قانونی تعمیرات کو منہدم کیا گیا تو پھر شکوک شبہات کو کوئی نہیں روک سکتا۔ کراچی کا کم و بیش 26 فی صد حصہ غیر قانونی قبضے میں ہے۔ اردو بازار، اولڈ سندھ سیکرٹریٹ، صوبائی محتسب کا دفتر، ناظم آباد میں نیا اردو بازار، شاہراہ فیصل پر ائرپورٹ کے قریب بڑا شاپنگ مال اور متعدد عمارتیں برساتی نالوں کے قریب یا نالے پر ہی بنادی گئیں۔ جس کے نتیجے میں بارش کے پانی کے نکاسی کا اب کراچی میں کوئی باقاعدہ نظام ہی نہیں رہا۔ اسی طرح پینے کے پانی کی 72، 57، 48 اور 36 انچ قطر کی متعدد کنڈیوٹ پر رہائشی اور تجارتی اسکیمیں بنادی گئیں۔ سیکڑوں پارک اور چوراہوں کو غیر قانونی کنکریٹ کی مارکیٹوں اور مکانات میں تبدیل کردیا گیا۔ گلستان جوہر بلاک 15، 14، 1، 2 اور 6، لانڈھی قائد آباد، داؤد چورنگی، کورنگی، محمود آباد، پی ای سی ایچ سوسائٹی، نارتھ کراچی اور نئی کراچی میں بے تحاشا خلاف قانونی تعمیرات موجود ہیں۔ ان تمام غیر قانونی یا خلاف ضابطہ تعمیرات کو مسمار کیے بغیر کراچی کو اس کی حقیقی شکل میں نہیں لایا جاسکتا۔ مرحلہ وار کچی آبادیوں کو بھی ری ڈیولپ کیا جانا چاہیے۔ یہی کراچی کا حق ہے۔
ایک تاثر تیزی سے قائم ہورہا ہے کہ غیر قانونی مارکیٹوں کے انہدام سے بیروزگاری میں اضافہ ہوجائے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر) کی بحالی سے 5 لاکھ افراد کو روزگار ملے گا۔ یہ روزگار کے سی آر کے اسٹیشنوں پر دکانوں، ہوٹلز، چاہے خانوں کے قیام سے حاصل ہوگا۔ جب کہ کے سی آر کے آپریشنل ہونے کے باعث بھی روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر کام منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جائے۔