دہشت گردی اور یادِ ماضی کا عذاب

200

 

 

 

ملک میں دہشت گردی کو مجموعی طور پچھاڑ دیا گیا ہے مگر دہشت گردی کے پے در پے واقعات کے باعث یوں لگ رہا ہے کہ تنِ مردہ میں جان ابھی باقی ہے۔ خیبر پختون خوا کے علاقے ہنگو میں دہشت گردی اور کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے نے پیغام دیا ہے کہ دہشت گردی ابھی پوری طرح ختم نہیں اور اگر اس خطرے سے ایک ذرا بھی نظر چُوک گئی تو یہ ایک بار پھر ریاست کے لیے سنگین چیلنج بن سکتی ہے۔ اس لیے دہشت گردی سے نمٹنے کے معاملے میں پاکستان کے پاس بطور ریاست اب غلطی اور غفلت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اس سے پہلے دو ایسے اندھے قتل ہوئے جن میں پاکستان اور اس کے ریاستی اداروں کی صلاحیت او رکارکردگی کے آگے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ ہیں مولانا سمیع الحق اور ایس پی طاہر داوڑ کے قتل کے لزرہ خیز واقعات جو کئی ہفتے گزرنے کے باجود اندھے قتل ہیں۔ ریاست کی خاموشی بتا رہی ہے کہ ابھی تک ان چکرا دینے والی وارداتوں نے ماہرین کو چکر میں ہی ڈال رکھا ہے اور وہ کوئی حتمی نتیجہ اخذ کرنے سے قاصر ہیں۔ قتل کی دو وارداتوں کا عام آدمی سے کوئی لینا دینا نہیں یہ ہماری ریاست اور اس کے ماہر اداروں کے لیے ایک مستور پیغام تھا۔ پیغام دینے والے کون ہیں؟ یہ انہیں بخوبی معلوم ہوگا کہ جن کے نام یہ پیغام تھا؟ شاید پیچیدہ طریقہ کار تک پہنچنا باقی ہے اور یہی اصل کام ہے۔
ملک میں جاری دہشت گردی کے کئی اسباب اور عوامل ہیں۔ ان میں کچھ مقامی ہیں اور زیادہ تر بیرونی ہیں۔ کچھ کا تعلق ماضی میں ریاست کی پالیسیوں، وقتی ضرورتوں اور مصلحتوں سے ہے۔ تاہم مجموعی طور پر یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان کی ریاست اب دہشت گردی کا خاتمہ ملع سازی اور مصنوعی انداز سے کرنے کے بجائے اس کو کسی بھی شکل میں قبول کرنے پر تیار نہیں اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ صرف زورآزمائی اور طاقت سے ممکن نہیں۔ ابھی تک دیکھا یہ گیا ہے کہ دہشت گردی کے عالمی کرداروں کو خام مال پاکستان سے با آسانی دستیاب ہے۔ چینی قونصلیٹ پر ہونے والے حملے میں شریک تین افراد اور ان کے سہولت کار پاکستانی شہری تھے۔ ان میں ایک تو باقاعدہ ریاست کا تنخواہ دار ملازم بھی تھا۔ اسی طرح دہشت گردی اور خود کش حملوں کے مرکزی ملزم بھی اکثر پاکستانی شہری ہی ہوتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہورہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے جذباتی جواز تلاش کیا جاتا ہے جسے پھر کسی پاکستانی باشندے کے ذہن میں ٹیکے کی طرح اتارا جاتا ہے۔ اسی نشے میں ایک پاکستانی باشندہ اپنی ہی ریاست کے خلاف خودکش جیکٹ پہن کر موت کی راہ پر چل پڑتا ہے۔ یہ ایک لمحہ فکر ہے کہ کلبھوشن جیسے بیرونی کرداروں کو پاکستان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے پاکستانی شہری دستیاب ہو جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے اس پہلو پر بہت سنجیدگی سے سوچ وبچار کی ضرورت ہے۔ اگر بیرونی ہاتھوں کو مقامی انسانی ہتھیار ملنا بند ہوجائیں تو ان کے لیے پاکستان میں اپنا کھیل کھیلنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو کر رہ جائے گا۔ دشمن کے لیے ہمارے اپنے لوگوں کا نرم چارہ اور آسان ہدف بننا لمحہ فکر ہے۔ اس کی وجہ ریاست کی پالیسیوں میں بھی تلاش کی جا سکتی ہے۔
بہت سے حلقوں کی جانب سے یہ سوال اُٹھایا جانا قرین انصاف ہے کہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے جانشین جس جنگ کو پاکستان کی جنگ قرار دیتے رہے اب عمران خان اسے قطعی ’’ڈس اوون‘‘ کرکے امریکا کی جنگ قرار دے رہے ہیں۔ گزشتہ دہائی میں جب یہ کھیل زوروں پر تھا اور دہشت گردی کی گردان میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی تو اس ملک میں ایک بڑا طبقہ ایسا تھا جو یہ کہہ رہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ درحقیقت امریکا کی جنگ ہے مگر اس وقت جنرل مشرف ڈمہ ڈولہ کے معصوم بچوں کی امریکی ڈرون میں شہادت کو اپنی فورسز کی کارروائی قرار دے کر امریکا کا گند بلاوجہ پاکستان کے سر پر منڈھ رہے تھے۔ پرائی آگ میں اپنے ہاتھ اور منہ جلانے کی اس حکمت عملی نے پاکستان کو دہشت گردی کی دلدل میں دھکیل دیا۔ پاکستانی ریاست کے موقف کے اندر پنہاں تضادات نے دہشت گردی کو تقویت دینے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ امریکا نے جان بوجھ کر پاکستان کے حکمرانوں سے ایسی حماقتیں کرائیں کہ امریکا کے دشمن مڑ کر پاکستان پر ہی پل پڑے۔ پاکستان جس خطے میں واقع ہے یہاں مدتوں ایک ’’بڑا کھیل‘‘ چل رہا ہے۔ ماضی میں یہ علاقہ سوویت یونین اور امریکا کے درمیان میدان جنگ تھا اور اب یہاں امریکا اور چین کے درمیان جنگ زوروں پر ہے اور سوویت یونین کی سکڑی ہوئی شکل یعنی روس اور بھارت بھی اپنا متعین کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان اس معاملے میں اپنے مقام اور مدار کا تعین کر بیٹھا ہے۔ وہ امریکا سے تعلقات قائم رکھتے ہوئے چین کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کر چکا ہے مگر یہ فیصلہ امریکا اور بھارت کو قبول نہیں۔ اس لیے وہ پاکستان کو اپنی آزاد روی کی نئی پالیسی کی سزا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
دہشت گردی کی ایک اہم جہت اور پرت یہی ہے۔ ریاست پاکستان دہشت گردی کی اس شکل سے لڑ رہی ہے مگر جہاں امریکا اور بھارت جیسے ملکوں کے وسائل اور ذہن ہوں وہاں آسانی سے سو فی صد ہدف حاصل کرنا آسان نہیں۔ پاکستان نے دہشت گردی کی ہر شکل کے مقابلے کے لیے اپنی استعداد بڑھائی تو ہے مگران واقعات کو سو فی صد کامیابی سے روکنا مشکل ہے۔ جب تک دہشت گردی کا خطرہ موجود ہے اس سے نمٹنے کے کام سے لمحہ بھر کو غافل نہیں ہوا جا سکتا۔ اس کے لیے ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے اپنا گھر اور ذہن ٹھیک رکھنا اور ٹھیک رکھنا از حد ضروری ہے۔