شعر ملاحظہ فرمائیے
تو کی جانے یار فرید
روٹی بندہ کھا جاندی اے
اہل وطن کی خوش بختی کہ عمران خان کی شکل میں انہیں ایک ایسی قیادت میسر آئی ہے جو سو دن سے غربت کے خاتمے کے لیے دن رات ایک کررہی ہے۔ ابھی یہ عمل نظریاتی مرحلے میں ہے۔ حکومت مختلف نظام ہائے معیشت کا مطالعہ کررہی ہے جن سے غربت کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔ حکومت کے پیش نظر اول مدینے جیسی ریاست ہے جہاں خلافت کا نظام رائج تھا۔ لوگ ڈھونڈتے پھرتے تھے زکوٰۃ لینے والا نہیں ملتا تھا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو اس میں لگتی ہے محنت زیادہ پھر امریکا اور مغرب کی ناراضی یقینی ہے جس کا خطرہ مول لینے کی جرأت نہیں۔ غربت کے خاتمے کے لیے چین سے بھی مشاورت جاری ہے۔ چینی بڑے گہرے لوگ ہیں۔ ان سے اصل بات اگلوا لینا مشکل کام ہے۔ ان شا اللہ جیسے ہی چین نے انتہائی ٹاپ سیکرٹ فائلز تک رسائی دی حکومت چینی ماڈل پر عمل کرکے غربت کا خاتمہ کردے گی۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم ملائشیا کے دورے پر تھے۔ اس دورے کا مقصد بھی غربت کے خاتمے کے لیے ملائشین ماڈل تک رسائی تھی۔ وزیراعظم نے مہاتیر محمد سے سرگوشی میں اپنا مقصد بھی بیان کیا۔ انہوں نے کیا جواب دیا۔ میڈیا پر کہیں خبر موجود نہیں۔ میڈیا پر غیرسنجیدہ خبروں کے انبار لگے ہیں لیکن اصل بات کوئی بتاتا ہی نہیں۔ تو بہرحال کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعظم دن رات مطالعہ اور مشاہدہ کررہے ہیں جیسے ہی انہوں نے غربت کے خاتمے کے لیے کسی نظام کا انتخاب کیا عوام کو خبر کردی جائے گی۔ اور پھر یہ درد بھرے دن کسی کو یاد بھی نہیں رہیں گے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور نامسعود میں لوگ آئے دن غربت کے سبب خود کشی کرتے رہتے تھے۔ مینار پاکستان کا تو اہل پنجاب نے استعمال ہی یہ بنالیا تھا کہ مینار پر چڑھے اور چھلانگ لگادی۔ حکومت کو مینار پر چڑھنے پر پابندی لگانی پڑی تھی۔ اس زمانے میں قائد اعظم کے مزار کی گنبد نما تعمیر کی افادیت لوگوں پر واضح ہوئی۔ جس میں نہ سیڑھیاں ہیں نہ اوپر چڑھنے کی گنجائش اور نہ چھلانگ لگانے کی۔ مینار پاکستان سے چھلانگ لگانے کے علاوہ لوگوں نے خودکشی کے دیگر ذرائع بھی استعما ل کیے جن میں بچوں سمیت نہر میں چھلانگ لگانا بہت پاپولر تھا۔ پانی کی کمی کی وجہ سے نہریں خشک ہوئیں تب کہیں جاکر اس طریقہ خود کشی سے نجات ملی۔ نواز شریف کے مظالم سے تنگ لوگ نہروں میں چھلانگ لگاتے اور بے لطف ہوکر خشک اور سوکھے کپڑے جھاڑتے باہر نکل آتے۔ ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کے واقعات بھی سامنے آتے رہتے تھے لیکن یہ طریقہ زیادہ قبولیت حاصل نہیں کرسکا۔ اس کی ایک وجہ ٹرنیوں کی ٹائمنگ تھی۔ خودکشی کرنے والے پٹڑیوں پر لیٹے لیٹے بور ہوجایا کرتے تھے لیکن ٹرینیں وقت پر نہیں آتی تھیں۔ پیوستہ رہ حکومت سے امید بہار رکھ کا فریب دینے کے لیے نواز شریف حکومت نے پیلی ٹیکسی اسکیم کا اعلان کیا تھا۔ اس پر صدر غلام اسحاق خان مرحوم برا مان گئے تھے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت اس اسکیم کے ذریعے پڑھے لکھے بی اے پاس نوجوانوں کو ڈرائیور بنا رہی ہے۔ غلام اسحاق خان کو پڑھے لکھے لوگوں کی عزت بہت عزیز تھی انہوں نے اس جرم کی پاداش میں نواز شریف کی حکومت برخاست کردی تھی۔ نواز شریف کے پاس تولوگوں کو خود کشی سے بچانے کے لیے محض یہ ایک فلاپ پلان تھا وزیر اعظم عمران خان کے پاس ایسے متعدد پروگرام ہیں۔ نواز شریف نے اگر غریبوں کو ٹیکسیاں دیں تھیں تو خان غریبوں کے لیے پچاس لاکھ گھر بنانے کے لیے مزدور اور تغاریاں جمع کررہے ہیں۔ نواز شریف نے ٹیکسیوں پر اصل زر دس فی صد اور بقیہ سود کی شکل میں اقساط پر مبنی رکھا تھا تو ان شااللہ مدینے جیسی ریاست میں بھی غریب عوام بیس فی صد نقد ادا کریں گے بقیہ 80فی صد سود کی شکل میں۔ فرض کیجیے ایک مکان کی قیمت بیس لاکھ روپے ہے غریب آدمی پانچ لاکھ نقد اداکرے گا جو اس کے لیے کوئی ایسی مشکل بات نہیں۔ بقیہ پندرہ لاکھ سودی قسطوں میں۔ اس میں ایک قباحت ہے وہ یہ کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا اور جنت میں جانے کا معاملہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اسلام سود کو اللہ اور اس کے رسول سید المرسلین آقا محمد ؐ سے جنگ کے مترادف قرار دیتا ہے۔
وزیراعظم نے غربت کے خاتمے کے لیے ایک اور معرکۃ الآرا منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم غربت کے خاتمے کے لیے دوسرے ممالک سے قرض لیں گے۔ سابقہ کسی حکومت کو یہ خیا ل نہیں آیا۔ نواز شریف اپنے ابتدائی ادوار میں موٹر وے بناتے رہے انہیں غریبوں کا خیال نہیں آیا۔ سی پیک کے لیے چین سے 46ارب ڈالر لینے کے لیے منصوبے ترتیب دے دیے لیکن غربت کے خاتمے کے لیے کبھی کسی حکومت سے ایک ڈالر قر ض نہیں لیا۔ اب عمران خان کی حکومت قرض لے لے کر غریبوں کو روٹی مہیا کرے گی۔ اسے کہتے ہیں وژن۔ اس سلسلے میں حکومت سب سے پہلے آئی ایم ایف سے قرض لے گی۔ مہنگائی نے چوں کہ غریبوں کی کمر توڑ رکھی ہے اس لیے حکومت نے تاحال آئی ایم ایف کے ناروا مطالبات کو حقارت سے ٹھکرادیا ہے۔ جیسے ہی غریبوں کی ٹوٹی کمر جڑے گی پھر آئی ایم ایف کے مطالبات مان لیے جائیں گے۔ اس میں نکتہ یہ ہے کہ اس وقت تک غریبوں کی کمر جڑ کر نیا بوجھ اٹھانے کے قابل ہوجائے گی۔
وزیر اعظم عمران خان کو شاید ادراک نہیں کہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں غربت کا خاتمہ ممکن نہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی آئیڈیالوجی ہی یہ ہے کہ دنیا کے وسائل تمام لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں لہٰذا تمام تر کوششوں کے باوجود کسی بھی معاشرے میں ایسے افراد رہیں گے جو بھوک کا شکار ہوں گے، جن کے پاس سر چھپانے کے لیے چھت نہیں ہوگی۔ تعلیم، صحت اور مواصلات کی سہولتوں سے محرومی ان کے نصیبوں کا لکھا ہوگا جسے کوئی دور نہیں کرسکتا۔ وسائل اور ضروریات کے درمیان اس خلیج کو زیادہ پیدوار سے کم تو کیا جاسکتا ہے لیکن ختم نہیں کیا جاسکتا۔ سرمایہ داریت اپنی پوری توجہ پیداوار کے اضافے پر مرکوز رکھتی ہے۔ جب کہ اس پیداوار کی معاشرے میں تقسیم اور غریبوں تک رسائی کو ٹریکل ڈاؤن ایفیکٹ پر چھوڑ دیتی ہے۔ ٹریکل ڈاؤن کا مطلب یہ ہے کہ جب پانی کا ٹینک بھرجائے گا تو وہ کناروں سے باہر گرے گا یوں معاشرے کے پیاسوں کو بھی کچھ مقدار میں پانی مل جائے گا۔ یا امیروں کا جب پیٹ بھرجائے گا تو وہ دسترخوان پر روٹی کے ٹکڑے چھوڑ دیں گے۔ امیروں کی یہ جھوٹن غریبوں کا پیٹ بھرنے کے کام آئے گی۔ ان بدبختوں کو یہ نہیں معلوم کہ سرمایہ داروں کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا؟
2018 میں دنیا کی کل پیداوار 87.51 ٹریلین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ یہ پیداوار اتنی زیادہ ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں میں منصفانہ تقسیم کردی جائے تو پوری دنیا سے غربت کا خاتمہ ہوجائے لیکن المیہ دیکھیے کہ اس پیداوار کے 50فی صد حصے کے مالک دنیا کے امیرترین ایک فی صد افراد ہیں۔ کریڈٹ سوئس گروپ کے مطابق یہ بھی بس نہیں ہے بلکہ ایک فی صد امیر ترین افراد اور دنیا کی بقیہ آبادی کے درمیان یہ فرق بڑھتا جارہا ہے۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور چین جیسے ترقی یافتہ ممالک یاپھر پاکستان، بھارت، مصر جیسے ممالک تمام ممالک میں غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ نائجیریا دنیا میں تیل کی پیداوار میں چھٹے نمبر پر ہے لیکن سرمایہ داریت کا فیض ہے کہ اس برس نائجیریا نے غربت میں بھارت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور دنیا بھر میں شدید غربت کا شکار ملک بن گیا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے غربت کے خاتمے کے دعوے دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ اسلام اسی لیے دولت کی منصفانہ تقسیم پر زور دیتا ہے۔ اللہ کی آخری کتاب قرار دیتی ہے ’جو لوگ تم میں دولت مند ہیں ان ہی کے ہاتھوں میں (دولت) نہ پھرتی رہے (الحشر:7)‘ رسالت مآب ؐ کا فرمان ہے ’’کسی بستی میں کوئی شخص بھوکا سوئے تو اس بستی کی ذمے داری سے اللہ تعالیٰ بری ہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ داریت انسانوں کے دکھوں کا مداوا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے مداوا اسلام کے پاس ہے۔