دفاعی نمائش کا کامیاب افتتاح

182

کراچی میں پاکستان کی دسویں دفاعی نمائش آئیڈیاز2018 کا افتتاح ہوگیا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے افتتاح کیا۔ اس نمائش میں امریکا، روس، برطانیہ اور چین سمیت 52 ممالک کے مندوبین شامل ہیں۔ یہ پہلی نمائش نہیں ہے بلکہ گزشتہ 18برسوں میں یہ دسویں نمائش ہے اور اس کا دائرہ ہر مرتبہ پہلے سے زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان نے اولین نمائش کے موقع پر جو نعرہ دیا تھا آج تک اس پر قائم کہ ’’ہتھیار برائے امن‘‘۔ کہنے کو تو ہتھیاروں کی نمائش ہے لیکن اب دنیا یہ بات جان گئی ہے اور ہر وہ طاقت جس کے پاس بے تحاشہ طاقت ہے وہ بھی مان گئی ہے کہ ہتھیار اگر سامنے والے کے پاس بھی ہو تو امن سے ہی رہنا چاہیے۔ سامنے والے کو نہتا کر کے اس پر ظلم کرنا، اس کے گھروں سے نکال دینا، سیکڑوں میل کے علاقوں کا محاصرہ کرنا یہ طاقت ور لوگوں کا کام ہے جب جب انہیں جواب ملتا ہے وہ یہ پیغام سمجھ جاتے ہیں کہ یک طرفہ طاقت سے امن قائم نہیں ہوتا تب وہ پندرہ بیس برس افغانستان میں جھک مارنے کے بعد مذاکرات کو مسائل کا حل سمجھنے لگتے ہیں ۔ افتتاحی خطاب میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے یقین دلایا ہے کہ حکومت ملکی دفاع کے لیے ہر قدم اٹھائے گی۔ تقریر اگرچہ روایتی تھی لیکن اس موقع کی مناسب سے یہی کچھ کہا جاسکتا ہے۔ صدر کہا ہے کہ امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ پرامن ہمسائیگی اور علاقائی تنازعات کا حل چاہتے ہیں اور پھر گفتگو کا رخ محدود ہوگیا۔ فرمایا کہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر آنا ہی ہوگا۔ آئیڈیاز کا آئیڈیا محض پاک بھارت جنگ اور تنازعات تک محدود نہیں لیکن ہمارے رہنماؤں کی تقاریر اس کے گرد گھومتی ہیں جبکہ یہ عالمی نمائش ہے 52ممالک اس میں شریک ہیں، یورپ نے دلچسپی لی ہے۔ کشمیر جیسا اہم مسئلہ اس کا ذکر جہاں کرنا چاہیے عموماً اس سے گریز کیا جاتا ہے تاہم صدر مملکت نے اس کا ذکر کر کے بھارت کو پیغام دیا ہے کہ عالمی برادری کے سامنے بھارتی مظالم کا ذکر کر کے ہم نے کشمیریوں کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ یہ بات بہرحال درست ہے کہ بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پورا خطہ متاثر ہے وہ کسی بات پر راضی نہیں ۔ ہمارے حکمران کہتے ہیں کہ امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے لیکن اس خواہش میں کمزوری سے بھی آگے پہنچ گئے ہیں۔ کرتارپور کوریڈور کھولنے کا فیصلہ کیا گیا بھارت کو پیغام بھیجا گیا بھارت نے خوشی خوشی رضامندی ظاہر کردی بلکہ منظوری دے دی کا لفظ استعمال کیا گیا اور پاکستان کی جانب سے بھی زور و شور سے کام شروع ہوگیا لیکن امن کی خواہش میں سشما سوراج نے بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا اور شرکت کی درخواست مسترد کردی۔ جس روز وزیر اعظم نے کرتار پور کوریڈور کا سنگ بنیاد رکھا اس روز بھارتی جواب بھی پاکستان کو مل گیا کہ آپ امن کی جتنی بھی خواہش رکھیں بھارت کو خطے کے امن سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہاں تک کہ بہت واضح بیان دیا گیا ہے کہ کرتار پور سرحد کھولنے سے مذاکرات کا آغاز نہیں ہوگا۔ کوئی بھارتی قیادت سے پوچھے کہ مذاکرات کا آغاز کب ہوگا۔ تو اس کوئی جواب پوری بھارتی قیادت کے پاس نہیں ہے۔ بات گھوم کر وہیں آتی ہے کہ ہتھیار برائے امن۔ چنانچہ جب افغانوں نے ہتھیار اٹھائے تو مذاکرات کی بات ہوئی۔ جب کشمیریوں نے ہتھیار اٹھائے تو مذاکرات کا جال بچھایا گیا۔ اسی طرح فلسطینیوں نے جب ہتھیار اٹھا لیے تو ان سے بھی مذاکرات کیے گئے۔ لیکن چونکہ یہاں معاملہ مسلمانوں کا ہے اس لیے ان تمام ممالک میں دھوکے دیے گئے۔ اسی قسم کے معاملات سری لنکا اور آئر لینڈ وغیرہ میں ہوئے تو سنجیدگی سے مذاکرات ہوئے اور امن قائم ہوگیا۔ اب پھر ہتھیار برائے امن آئیڈیاز کے موقع پر کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کی کوشش کی گئی یہ کوشش محض ایک دہشت گردی نہیں تھی بلکہ یہ آئیڈیاز کے خلاف سازش تھی۔ آئیڈیاز میں محض پاکستانی دفاعی صنعت اور ہتھیاروں کی نمائش نہیں ہوتی۔ ایک طرف دنیا بھر میں پاکستانی ہتھیاروں کی تشہیر ہوتی ہے تو دوسری طرف بھارت جیسے دشمن پر دھاک بھی بیٹھتی ہے کہ پاکستان کے بارے میں زبانی جنگ تو کر لیں لیکن کسی قسم کی مہم جوئی کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لیا جائے۔ سیکڑوں آنکھیں اس نمائش کا ہر پہلو سے جائزہ لیتی ہیں۔ بہرحال تمام تمام تر رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود آئیڈیاز کا کامیاب افتتاح منتظمین اور پاکستانیوں کو مبارک ۔