عمران خان کی پیشکش اور بھارت

172

سکھوں کے لیے کرتار پور راہداری کھولنے کے موقع پر وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بڑا جامع خطاب کیا ہے اور ہمیشہ جارحیت پر آمادہ پڑوسی ملک بھارت کو پیشکش کی ہے کہ اگر وہ دوستی کے لیے ایک قدم بڑھائے گا تو ہم دو قدم بڑھائیں گے۔ اس پیشکش کا بھارت کی طرف سے جو فوری جواب آیا ہے وہ بھی غیر متوقع نہیں۔ اس نے حسب روایت پاکستان سے کسی بھی قسم کے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک بار پھر رٹ لگائی ہے کہ ’’کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے‘‘۔ خود بھارت کی اندرونی صورتحال یہ ہے کہ اس کا ایک ایک انگ ٹوٹ رہا ہے۔ کشمیر تو کسی طرح بھی بھارت کا نہیں لیکن ملک میں علیحدگی کی کئی تحریکیں چل رہی ہیں۔ کرتار پور راہداری کھلنے سے بھارت اس خوف میں مبتلا ہوگیا ہے کہ سکھوں کی پرانی تحریک آزادی برائے خالصتان کو تقویت ملے گی۔ بھارتی سابق کرکٹر اور سیاستدان نوجوت سنگھ سدھو اور سکھ گردوارہ پر بندھک کمیٹی کے رہنماگوپال چاولہ کے عمران خان اور پاک فوج کے سالار قمر جاوید باجوہ سے مصافحہ اور معانقہ پر اودھم مچادیا ہے اور اسے خالصتان تحریک کے احیاء سے جوڑدیا ہے۔ یہ بھارتی حکمرانوں کا اندر کا خوف ہے۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی نے وزیراعظم بن کر سکھوں کے مقدس ترین گردوارے دربار صاحب امر تسر پر فوج کا حملہ کروایا جس میں سکھوں کا لیڈر جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا مارا گیا۔ اس کے بدلے میں اندرا گاندھی کے سکھ محافظ نے اندرا کو ایوان وزیراعظم ہی میں گولیوں کا نشانہ بناکر اپنے گردوارے کی بے حرمتی کا بدلہ لے لیا۔ لیکن پھر پورے بھارت میں سکھوں کا جو قتل عام ہوا اسے سکھ ابھی تک بھولے نہیں ہیں۔ بھارتی حکومت نے گردوارہ دربار صاحب پر آپریشن بلیو اسٹار کرکے خود خالصتان تحریک میں جان ڈالی۔ بہر حال گزشتہ بدھ کو وزیراعظم عمران خان نے اپنے بلیغ خطاب میں کئی اہم باتیں کی ہیں اور اہم ترین بات یہ کی ہے کہ ماضی سیکھنے کے لیے ہوتا ہے اسے سینے سے لگاکر نہیں رکھنا چاہیے۔ یہ پاک بھارت ماضی کی تلخیوں کی طرف ا شارہ تھا۔ گو کہ بھارت کا پاکستان کے ساتھ ماضی کا تعلق بھلادینے والا نہیں اور اس کا حال ماضی کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ لیکن عمران خان ماضی کو بھلادینے کی تلقین پر اپنے ملک کے اندر بھی تھوڑا سا عمل کریں۔ یہاں تو وزیر اعظم ہی کیا ان کا ہر وزیر مشیر جب بھی منہ کھولتا ہے اس کی تان ماضی کی حکومتوں ہی پر ٹوٹتی ہے کہ سابق حکمرانوں نے یہ کیا اور وہ کیا۔ کیا یہ اپنا حال چھپانے کی کوشش ہے؟ اب ماضی کی حکومتوں کو کوسنے کے بجائے عمل کے میدان میں قدم رکھ ڈالیں اور ثابت کریں کہ تحریک انصاف کی حکومت ماضی کی حکومتوں سے مختلف ہے۔ لیکن اب تک ایسا ظاہر نہیں ہوسکا ہے۔ جو بھی شخص اصلاح احوال کے لیے اٹھے اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے عمل سے اس کا ثبوت دے کہ وہ دوسروں سے مختلف ہے۔ جمعرات کو اخبارات میں آدھے صفحے کا ایک اشتہار حکومت پاکستان کی طرف سے شایع ہوا ہے جس کا عنوان ہے ’’ہماری کارکردگی کے لیے گواہی ہزاروں الفاظ کی۔ اور یہ دعویٰ کہ پاکستان میں حکومت نے نہ صرف پہلے سو دن کے طے کردہ اہداف حاصل کیے ہیں بلکہ نئے پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے عوامی وقومی ترقی کے کئی اضافی اقدامات بھی اٹھائے ہیں۔ شاید ایسا ہی ہو چنانچہ اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں،عنوان ہی کافی ہے کہ کارکردگی کی گواہی ہزاروں الفاظ دے رہے ہیں۔ گواہی الفاظ کی نہیں عمل کی معتبر ہوتی ہے۔ اس کے جواب میں حزب اختلاف کروڑوں الفاظ کی گواہی لے آئے تو کیا ہوگا۔ اب تک تو 100 دن کے اہداف محض الفاظ ہی ثابت ہوئے ہیں اور اس کا اعتراف حکومت پاکستان کی طرف سے بڑے حوصلے کی بات ہے۔ تاہم انہی کالموں میں اس بات کی تحسین کی جاچکی ہے کہ ابتدائی 100 دن کے بعد خود کو احتساب کے لیے پیش کردینا قابل تعریف ہے۔ جمعرات کو حکومت کے ہر چھوٹے بڑے نے اپنی کارکردگی پیش کردی ہے، حزب اختلاف اس کے بخیے ادھیڑتی رہے گی۔ وزیراعظم سے عرض ہے کہ وہ بھی ماضی سے کچھ سیکھیں اور یاد رکھیں کہ ہر گھڑی محشر کی ہے، سب عرصہ محشر میں ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے کرتار پور راہداری کھول دی اور بھارت کو گلے لگانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ تجارت کے لیے ہمیں سرحدیں کھولنا ہوں گی لیکن انھیں شاید یاد ہو کہ جب سابق وزیراعظم میاں نواز شریف بھارت سے پینگیں بڑھاتے تھے تو تحریک انصاف ہی یہ نعرہ لگاتی تھی کہ ’’مودی کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے۔‘‘ بھارت کے لیے دو قدم آگے بڑھنے کا مطلب بھارتی وزیراعظم مودی سے یاری نہیں تو اور کیا ہے۔ لیکن عمران خان کے اظہار محبت کو بھارت نے بڑی بے دردی سے ٹھکرادیا ہے۔ ماضی کی یہ زنجیریں ٹوٹنے والی نہیں۔ اس زنجیر کی سب سے خطرناک کڑی کشمیر ہے اور جب تک کشمیر کو وہاں کے عوام کی خواہش کے مطابق آزادی نہیں مل جاتی پاک بھارت تعلقات میں بہتری نہیں آسکتی۔ کرتار پور راہداری کھولنے کا اقدام قابل تحسین سہی، لیکن اس راستے سے آنے والوں کی کڑی نگرانی بھی ضروری ہے کیونکہ سکھوں کے بھیس میں قادیانی بھی داخل ہوسکتے ہیں۔ قادیان ضلع گورداس پور ہی میں ہے اور کرتارپور راہداری کھلنے سے قادیان میں بھی جشن منایاگیا ہے۔ گو کہ پاکستان میں قادیانیوں کی کمی نہیں ہے اور انھیں اہم مناصب بھی حاصل ہیں لیکن قادیان سے مزید کھیپ آسکتی ہے۔ اس پر خود سکھ یاتریوں کو نظر رکھنا ہوگی۔