تاجربرادری روانڈا میں تجارت،سرمایہ کاری کریں،اعزازی قونصل جنرل

241

کراچی چیمبر روانڈا میں سفارتخانہ کھلوانے میں اپنا کردار ادا کرے گا،جنید ماکڈا

کراچی: روانڈا کے اعزازی قونصل جنرل فاروق اعظم خواجہ نے کہا ہے کہ یہ صدی افریقا کی صدی ہے اور روانڈا کے ساتھ پاکستان کی دوطرفہ تجارتی تعلقات کے فروغ دینے کے وسیع تر امکانات موجود ہیں لہٰذا کراچی کی تاجروصنعتکار برادری آگے آئے اور روانڈا میں تجارت کی نئی راہیں تلاش کرے جو کاروبار کے لحاظ سے ایک پرکشش مقام ہے نیز پورے افریقی خطے میں محفوظ اور صاف ترین ملک ہے۔ٹیکسٹائل، کپڑے،گارمنٹس ، زرعی مصنوعات، سیمنٹ، سرجیکل آلات اور دیگر دوسری پاکستانی مصنوعات نہ صرف روانڈا کو برآمد کی جاسکتی ہیں

بلکہ 1.25ارب آبادی پر مشتمل پورے افریقی خطے میں دیگر ملکوں کو بھی بھیجی جاسکتی ہیں۔جو کچھ بھی پاکستان میں پیدا ہورہاہے وہ افریقا بھیجا جاسکتا ہے کیونکہ وہاں کئی مصنوعات کی بہت زیادہ کمی کی وجہ سے بے پناہ مانگ ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی) کے دورے کے موقع پر اجلاس سے خطاب میں کہی۔کے سی سی آئی کے صدر جنید اسماعیل ماکڈا، سینئر نائب صدر خرم شہزاد،نائب صدر آصف شیخ جاوید،چیئرمین ڈپلومیٹک مشنز و ایمبیسیز لائژن سب کمیٹی شمعون ذکی اور منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی اجلاس میں شریک تھے۔
فاروق خواجہ نے پورے افریقی خطے میں دواؤں کی قلت کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کی کئی فارماسیوٹیکل کمپنیاں اعلیٰ معیاری ادویات تیار کررہی ہیں جو افریقا کو برآمد کی جاسکتی ہیں جبکہ اس خطے میں تعمیراتی شعبے میں بھی بہت زیادہ تیزی آئی ہے لہٰذا پاکستانی تاجر برادری سیمنٹ و دیگر متعلقہ مصنوعات بھی روانڈا سمیت دیگر افریقی ریاستوں کو سپلائی کر سکتی ہے ۔
انہوں نے تجارت و سرمایہ کاری میں حائل بعض رکاوٹوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہاکہ افریقی خطہ 54ممالک پر مشتمل ہے لیکن بدقسمتی سے صرف14پاکستانی سفارتخانے اس اہم خطے میں موجود ہیں جبکہ بھارت کے سفارتخانوں کی مجموعی تعداد 48ہے۔افریقی خطے کا مجموعی تجارتی حجم ایک کھرب ڈالر ہے جس میں پاکستان کا حصہ بمشکل 3ارب ڈالر ہے جس کی وجہ رابطوں کا فقدان ہے جبکہ بھارت مؤثر طریقے سے افریقی خطے میں داخل ہو کر اس صورتحال سے فائدہ اٹھا رہاہے۔

چین نے بھی اس خطے میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے جبکہ جاپان اور ترکی بھی اس بڑی مارکیٹ میں دلچسپی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ نہ کوئی فضائی معاہدہ موجود ہے اور نہ ہی پاکستان کا روانڈا میں کوئی سفارتخانہ ہے لہٰذا ایسی صورت حال میں روانڈا سے تاجرپاکستان کے لیے کیسے سفر کریں۔پاکستان میں کسی کو بھی سفر کرنے کے لیے ویزہ کے حصول کے لیے پہلے کسی ایسے افریقی ملک جانا پڑتا ہے جہاں پاکستانی سفارتخانہ موجود ہو تاکہ وہ وہاں سے ویزہ حاصل کرسکے۔ یہ پیچیدگیاں تجارت بڑھانے کی راہ میں روکاوٹ پیدا کررہی ہیں جن پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ گزشتہ 15سالوں کے دوران کسی اعلیٰ سرکاری حکام جن میں صدر،وزیراعظم یاکوئی اور پارلیمینٹیرین بھی شامل ہیں کسی نے روانڈا کا دورہ نہیں کیا لہٰذا یہ ضروری ہے کہ حکومت کے حکومت سے اور کاروباری افراد کے کاروباری افراد سے رابطے بڑھا ئے جائیں۔پاکستان یورپی یونین،امریکا،برطانیہ،مشرق وسطیٰ اور چین کے لیے اپنی برآمدات کو فروغ دینے پر توجہ دیتا چلا آرہا ہے جبکہ افریقی مارکیٹ کو نظرانداز کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی برآمدات18سے24ارب ڈالر کے درمیان ہی گھوم رہی ہیں۔
کے سی سی آئی کے صدر جنید ماکڈا نے کہا کہ یہ امر باعث تشویش ہے کہ حکومتی سطح پر یا نجی شعبے میں دونوں ممالک کے درمیان کوئی ایک بھی معاہدے پر دستخط نہیں کیے گئے باوجود اس کے کہ دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کی بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے۔انہوں نے کہاکہ کراچی چیمبر سفارتخانے کے مسئلے کو وزارت خارجہ کے ساتھ اٹھائے گا اور فیصلہ سازوں سے درخواست کرے گاکہ روانڈا میں پاکستانی سفارتخانہ کھولنے کے امکانات کا جائزہ لیا جائے جس سے دونوں ملکوں کی تاجربرادری کے درمیان روابط کو بہتر بنانے میں یقینی طور پر مدد ملے گی۔
کے سی سی آئی کے صدر نے دونوں ملکوں کے مابین محدود تجارتی حجم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ مالی سال 2017میں پاکستان نے روانڈا کو 0.205ملین ڈالر مالیت کی اشیاء برآمد کیں جبکہ درآمدات 34.485ملین ڈالر ریکارڈ ہوئیں جو دونوں ملکوں کے فیصلہ سازوں کی خصوصی توجہ کی منتظر ہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان اور روانڈا زرعی مصنوعات کی تجارت کرکے تجارت کو فروغ دے سکتے ہیں۔جانوروں،گوشت و خوردنی گوشت کی دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے بھی وسیع مواقع موجود ہیں۔پاکستان صحت کے شعبے میں بھی مدد فراہم کرسکتا ہے نیز طبی سیاحت کے لحاظ سے بھی روانڈا کی مدد کی جاسکتی ہے۔