امکانات کا کینوس بہت وسیع ہوتا ہے، ہر منظر کو واضح اور عیاں کردیتا ہے مگر پانی کے بغیر زندگی کا تصور بھی ناممکن ہے، زمین پیاسی ہو تو لوٹ کا مال بن جاتی ہے، قوم کی خوش حالی اور ملک کی پائیداری امکانات کے دائرے سے خارج ہوجاتی ہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جو ملک دشمن عناصر کو تقویت دیتی ہے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، وہ ہر اس فعل کے مرتکب ہوتے ہیں جو وطن عزیز کو پانی کی قلت میں مبتلا کرسکے۔ بھارت ڈیم پر ڈیم بنارہا ہے اس کی کوشش ہے بلکہ اس کی خارجہ پالیسی کا اہم نکتہ پاکستان کو بنجر کرنا ہے اور المیہ یہ بھی ہے کہ اس نے وطن عزیز کے کچھ بنجر ذہنوں کو خرید لیا ہے اور اس کی قیمت موقع محل کی بنیاد پر ادا کرتا رہتا ہے۔ کالا باغ ڈیم بنانے میں وطن عزیز کی کچھ بگڑی ہستیاں رکاوٹ بن گئی ہیں یہ اشخاص اتنے طاقتور ہیں کہ عدلیہ کو بھی ان کے سامنے پسپا ہونا پڑتا ہے۔ عادل اعظم ثاقب نثار نے حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے کالا باغ کے بجائے بھاشا اور مہمند ڈیمز کی تعمیر کا بیڑا اُٹھایا اور اس کے لیے قوم کو عطیات کی ترغیب دی اور خوش آئند بات یہ ہے کہ قوم نے لبیک کہنے میں تاخیر نہیں کی مگر وزیراعظم عمران خان نے عدلیہ کی پکار یہ کہہ کر مسترد کردی کہ وہ عطیات وصول کرتے کرتے تھک چکے ہیں مگر جب عطیات کی بوچھاڑ ہوئی تو موصوف نے وزیراعظم ڈیمز فنڈ قائم کردیا۔
برطانیہ کے مختلف شہروں میں ڈیمز کے لیے فنڈ ریزنگ کی تقاریب سے خطاب کرتے ہوئے عادل اعظم نے کہا کہ ڈیمز بنانے کا حکم عدالت نے دیا ہے سو، حکومت پر لازم ہے کہ اس میں مکمل عمل کیا جائے۔ ان کے کہنے کے مطابق برطانیہ میں فوری انصاف کی روایت بہت مستحکم ہے، یہاں کرپٹ افراد کو برداشت نہیں کیا جاتا اور مقدمات چالیس چالیس سال تک نہیں چلائے جاتے، سائلین کو پیشی در پیشی کے بھنور میں غوطے نہیں لگائے جاتے لیکن وطن عزیز کا باوا آدم ہی نرالہ ہے لوگ انصاف کا انتظار کرتے کرتے مرجاتے ہیں مگر انصاف نہیں ملتا یتیم اور بیوہ خاتون کے لیے انصاف کا تصور بھی محال ہے حالاں کہ جس معاشرے میں کمزوروں کے حقوق غضب کیے جاتے ہیں وہاں بدامنی اور انتشار کی حکمرانی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ انصاف دینا اور دلانا کس کا کام ہے؟ جس ملک کا چیف جسٹس نظام عدل سے متنفر ہو وہاں عدلیہ کا کیا جواز ہے؟ باوا آدم ہی کو سب کچھ کرنا ہے تو بابا رحمت کا کیا کام ہے؟ عادل اعظم کا یہ استفسار قابل توجہ ہے کہ کالا باغ ڈیم چاروں صوبوں میں اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے نہ بن سکا۔ بھاشا اور مہمند ڈیمز اتفاق رائے کے باوجود کیوں نہ بن سکے؟ چالیس سال سے کوئی ڈیم نہیں بنا اس غفلت کا مرتکب کون ہے؟ کوئی بتانے پر تیار نہیں کہ قوم جانتی ہے کہ غفلت کس نے برتی؟ اور اس کا مقصد کیا ہے؟ اور اب وہی کہتے ہیں کہ دریائے سندھ پر ڈیم نہیں بننے دیں گے لیکن عدلیہ فیصلہ کرچکی ہے کہ دریائے سندھ پر ایک نہیں بیسیوں ڈیمز بنیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ چندے سے کوئی بھی ملک ڈیم نہیں بنا سکتا مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ چندہ کسی بھی معاملے کی حساسیت کو نمایاں کرتا ہے اور جب قوم کسی معاملے کی اہمیت اور اس کی ضرورت سے آگاہ ہوجاتی ہے تو پھر ۔۔۔ دنیا کی کوئی طاقت رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ ہر رکاوٹ ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہے۔ اس موقع پر برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں نے ڈیمز کی تعمیر میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ فنڈ ریزنگ میں لاکھوں پاؤنڈز کے عطیات دیے اور مزید فنڈ دینے کا اعلان کیا۔ پاکستانیت پائندہ باد! پاکستان زندہ باد