بھارت کی خوشامد اور طلسماتی لکیر 

342

کرتار پورہ نارووال سرحد کھلنے سے دنیا بھر کے سکھوں کی خوشی اور جوش وخروش دیدنی ہے۔ ہر سکھ خود کو روحانی طور پر بادشاہ سمجھ رہا ہے۔ اکثر کو یقین ہی نہیں آرہا کہ یہ انہونی ہو چکی ہے۔ پاک بھارت کشیدہ تعلقات کی تاریخ کے پیش نظر وہ اس تاریخی عمل اور لمحے سے مایوس ہو چکے تھے۔ بس ایک موہوم امید پر وہ یہ راستہ کھولنے کا مطالبہ دہراتے چلے آرہے تھے۔ کرتار پورہ سرحد کھولنے کی تقریب کے سکھ شرکاء کی پرنم آنکھیں اور جذباتی لہجے اس شوق اور جذبات کی کہانی سنارہے تھے۔ بھارت کی ایک سکھ وزیر خطاب کرتے ہوئے آبدیدہ بھی ہوگئیں۔ شرکاء نے اپنے جذبات کو چھپانے کی اداکاری بھی نہیں کی اور انہوں نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی دل کھول کر تعریف کی۔ ایک طرف سکھ اس لمحے کو تاریخی قرار دے کر پھولے نہیں سمارہے تھے تو دوسری طرف دہلی سے الزامات اور اتہامات کے شعلے اور گولے آرہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا کہ بھارت کے حکمران طبقات کو سکھ کمیونٹی کی یہ خوشی راس نہیں آرہی تھی۔ وہ اس رنگ میں بھنگ ڈال رہے تھے۔ ایک طرف عمران خان بھارت کو مسئلہ کشمیر حل کرنے کی دعوت دے کر آگے بڑھنے کی بات کر رہے تھے۔ دونوں ملکوں کے درمیان دوستی اور تجارت کو ناگزیر قرار دے رہے تھے۔ جنگ کو پاگل پن کہہ رہے تھے۔ تو دوسری طرف بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج دوٹوک انداز میں کہہ رہی تھیں کہ سارک کانفرنس پاکستان میں ہوئی تو بھارت اس میں شریک نہیں ہوگا اور یہ کہ کرتار پورہ راہداری کھولنے کا مطلب پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہرگز نہیں۔ بھارت کی وزارت خارجہ کو اس تقریب میں عمران خان کی طرف سے کشمیر کا ذکر کرنا ایک آنکھ بھی نہیں بھایا اور کشمیر کے بارے میں تاریخی صداقتوں سے انکار کرتے ہوئے کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیا۔ بھارتی میڈیا نے پوری تقریب کو بھول بھال کر آرمی چیف جنرل باجوہ کا خالصتان نواز راہنما گوپال اچاریہ سے ہاتھ ملانا ہی یاد رکھا۔ اسی طرح نوجوت سنگھ سدھو اور گوپال چاولہ کے گروپ فوٹو کو بھی پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس درد اور جلن سے صاف اندازہ ہورہا تھا کہ بھارت برہمن اشرافیہ کا ملک ہے۔ یہاں اقلیتیں محض جمہوریت اور سیکولرازم کی نمائش گاہ میں سجا کر رکھی گئی ہیں۔ قیام پاکستان سے بہت پہلے ہی قائد اعظم نے اس صورت حال کا اشارہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ کانگریس مولانا آزاد کو ’’شو بوائے‘‘ کے طور استعمال کر رہی ہے۔ آج بھی بھارت کی جمہوریت اور سیکولرازم میں صرف مسلمانوں ہی نہیں سکھوں اور عیسائیوں کی یہی حیثیت ہے۔ بھارت میں فیصلہ سازی پر اصل کنٹرول برہمن اشرافیہ کا ہے۔ اسے سکھوں کی خوشی اور تسکین سے کوئی غرض نہیں۔ بھارت کے اس رویے کو دیکھ کر اندازہ ہورہا ہے کہ بھارت اس فیصلے سے خوش نہیں یہ سکھ کمیونٹی اور کسی بین الاقوامی طاقت کے دباؤ پر بھارت اس مرحلے پر یہ کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور ہوا ہے۔ بھارت اسے سکھ کمیونٹی کا پاکستان کے ساتھ دور رس اثرات کا حامل ایک نیا رابطہ سمجھ کر خوف زدہ ہے۔
بھارت کی سیاسی حکومت کی بات تو الگ تھی اب فوجی سربراہ جنرل جنرل بپن راوت بھی بڑھ چڑھ کر بولنے لگ گئے اور انہوں نے نہایت تحکمانہ انداز میں کہنا شروع کیا کہ اگر پاکستان بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتا ہے تو اسے خود کو ایک سیکولر اسٹیٹ بنانا ہوگا پاکستان نے خود کو اسلامی اسٹیٹ بنایا ہے۔ بھارت سیکولر ملک ہے پاکستان کو اس کے ساتھ تعلقات کے لیے خود کو سیکولر بنانا ہوگا۔ یہ بھارت کے ایک حاضر سروس فوجی جرنیل کا دوسرے ملک کے اندرونی نظام اور شناخت پر تبصرہ اور مشورہ ہے۔ یہ وہ ملک ہے جو بہت تیزی سے سیکولر طور طریقے ترک کرکے ایک ہندو ریاست بنتا جا رہا ہے۔ اب حکومت کو شاید احساس ہونے لگا ہے کہ سودن میں بھارت کی خوشامد، اس کے برہم مزاج کو ٹھنڈا کرنے کی اب حد ہوگئی۔ اسی سوچ کا عکاس آل پارٹیز کشمیر پارلیمنٹری کمیٹی کے زیر اہتمام سیمینار میں اور اس کے بعد وزیر اطلاعات فواد چودھری کا کشمیریوں کی حمایت میں اپنایا جانے والا دوٹوک انداز ہے۔ جس میں کہا گیا کہ نریندر مودی نے کشمیریوں کے لیے اقتصادی پیکیج کا اعلان کیا مگر آزادی کو روپے پیسے سے تولا نہیں جا سکتا کیوں کہ یہ انسانوں کے دل کے اندر کے جذبے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے بعد اب وہ لکیر شروع ہوتی ہیں جسے پار کرنے والے دیومالائی کہانی کی طلسماتی جادو نگری میں پہنچ جایا کرتے ہیں جہاں پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ممانعت ہوتی ہے اور کسی روز وہ کسی دن بے دھیانی میں پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں اور پتھر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ پاک بھارت تعلقات میں وہ لکیر کشمیر ہے۔
موجودہ حکومت نے قدم قدم پر بھارت کے لیے نرم الفاظ اور نرم رویے کا مظاہرہ کیا۔ جس کا مقصد بگڑے ہوئے بھارتیوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنا تھا تاکہ وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہوں۔ خیر سگالی کے ہر اشارے اور پیغام کا جواب درشت لہجے اور انکار میں ملا۔ کرتار پورہ راہداری کا کھلنا بھی بھارت کی بدمزاجی اور چڑچڑے پن کو خوش مزاجی میں نہ بدل سکا۔ اب تو وزیر اعظم عمران خان کی باتوں کا جواب بھارتی آرمی چیف کی طرف سے آنے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ فواد چودھری کو کھل کر کشمیریوں کی حمایت میں آواز بلند کرنا پڑی۔ بھارت کو مذاکرات کی دعوت دیتے رہنا ٹھیک سہی مگر اس کے مزاج کو خوش گوار بنانے پر صلاحیت اور وقت ضائع کرنے کے بجائے کشمیر کا مقدمہ لڑنے کی کوششوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ بھارت اور کشمیر کے معاملے پر پاکستان کی ایک طلسماتی لکیر ہے۔ اس لکیر کو پار نہ کرنے میں عافیت ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ لکیر صرف اسی وقت بخیر وخوبی پار ہو سکتی ہے جب تک بھارت کشمیر کو متنازع تسلیم نہیں کرتا۔ اس سے پہلے یہ لکیر عبور کرنے کی کوشش کرنا کبھی بھی کسی کے لیے بھی اچھا شگون نہیں رہا۔