سعودی ولی عہد کا غیر ملکی دورہ 

190

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان غیر ملکی دوروں پر ہیں جہاں انہیں صحافی جمال خاشق جی قتل کے تناظر میں عوامی سطح پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔ تیونس میں تو ان کی آمد سے پہلے ہی لا اھلاًولا مرحباً کے بینر آویزاں کردیے گئے تھے لہٰذا وہ تیونسی صدر باجی قائد سبسی سے مختصر ملاقات کرکے فوراً جی ٹوئنٹی کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے ارجنٹائن چلے گئے۔ ارجنٹائن کے قانون کے مطابق وہاں کی حکومت دنیا کے کسی بھی خطے میں ہونے والے جنگی جرائم کے خلاف مقدمہ قائم کرسکتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے ارجنٹائن سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ شہزادہ محمد کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔ دوسری جانب امریکا سعودی قیادت کو بچانے کے لیے پوری توانائی صرف کررہا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ خاشق جی کے قتل کی آڈیو ریکاڈنگ سننے سے انکار کرچکے ہیں۔ وائٹ ہاؤس نے سی آئی اے کی خاتون سربراہ جینا ہسپل کو سینیٹ کے اجلاس میں قتل سے متعلق بریفنگ دینے سے روک دیاہے ، جب کہ وہ اس کیس کے سلسلے میں ترک حکام سے ملاقاتوں کے علاوہ تمام ثبوتوں کا معاینہ کرچکی ہیں۔ خاشق جی کیس کے ساتھ سعودی عرب کو سب سے زیادہ یمن میں شہری ہلاکتوں سے متعلق تنقید کا سامنا ہے۔ امریکی سینیٹ میں سعودی اتحاد کی حمایت ختم کرنے کا بل بھی پیش کیا گیا ہے جس سے ٹرمپ انتظامیہ کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ مفادات کی جنگ میں جہاں ڈونلڈ ٹرمپ ریاض حکومت کے دفاع میں کمربستہ ہیں وہاں مغربی دنیا خار نکال رہی ہے۔ ریاض حکومت کی جانب سے این جی اوز کے کاکنوں کی گرفتار ی پر تنقید کے جواب میں جس طرح حمیت سے بھرپور ردعمل دیا گیا تھا، کینیڈا اسے بھلا نہیں سکا۔ اس سلسلے میں اسٹاک ہوم میں نوبل انعام انہی زیر حراست کارکنوں کے نام کیا گیا تاکہ دنیا کو سعودی عرب کے خلاف بھڑکایا جاسکے۔ جرمنی، اسپین اور دیگر ممالک پہلے ہی اسلحہ کے معاہدے منسوخ کرچکے ہیں۔ ان حالات میں ترک حکومت کی جانب سے قدرے نرم رویے کا مظاہرہ کیا گیا ہے اور سعودی عرب کو ترکی میں سرمایہ کاری کی پیشکش کی گئی ہے۔ اس سے قبل شہزادہ محمد بھی ترک صدر سے ملاقات کی خواہش ظاہر کرچکے ہیں۔ جی ٹوئنٹی کے اجلاس میں دونوں نے ایک دوسرے کو نظر انداز کیا لیکن روسی صدر پیوٹن اور شہزادہ محمد نے باہم بے تکلفی کا مظاہر ہ کیا۔ محمد بن سلمان نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے بھی گرم جوش ملاقات کی اور بھارت کو تیل کی فراہمی اور وہاں سرمایہ کاری کرنے کے وعدے بھی کیے۔ لیکن عالم اسلام کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ نہیں پوچھا کہ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں ایک ماہ میں کتنے مسلمان شہید کردیے گئے۔ شاید یہ سوال اس لیے نہیں کیا کہ جواب میں مودی بھی پوچھ سکتے تھے کہ عرب اتحاد نے یمن میں کتنے مسلمان مار دیے۔ سعودی حکمرانوں کو یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ حرمین شریفین کا متولی اور خادم ہونے کی وجہ ہی سے عالم اسلام میں ان کا خصوصی مقام اور احترام ہے۔ ان کے فیصلوں اور عمل سے امت مسلمہ کے تشخص پر ضرب پڑتی ہے۔