تھالی کا بینگن

211

کسی بھی جمہوری حکومت کے مستقبل کا فیصلہ اس کے ابتدائی سو دنوں کی کارکردگی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ عمران خان کی حکومت سو دن پورے کرچکی ہے مگر حکومت اپنے پیش رو حکمرانوں کی کرپشن کے قصے سنانے کے سوا کچھ نہ کرسکی۔ سوال یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان ملک و قوم کے مسائل و مصائب اور اپنی کارکردگی پر توجہ دینے کے بجائے سابق حکمرانوں کی کارکردگی کا ورد کیوں کررہے ہیں؟ مسئلہ یہ نہیں کہ سابق حکمرانوں نے کیا کیا؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ کیا کررہے ہیں اور کیا کرنا چاہتے ہیں۔ آثار و قرائن تو یہ بتارہے ہیں کہ عمران خان اپنے نام کے ساتھ وزیراعظم لگانے کے متمنی تھے اور ان کی یہ تمنا پوری ہوچکی ہے، قوم جائے بھاڑ میں۔ وزیراعظم عمران خان کے انداز حکمرانی کا جائزہ لیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ وہ تحریک پاکستان کے رہنماؤں کے نقش قدم پر گامزن ہیں، کوئی مانے یا نہ مانے لیکن حالات اور واقعات گواہ ہیں کہ مسلم لیگی رہنماؤں کا مقصد صرف حصول پاکستان تھا جہاں ان کی حکمرانی ہو۔ المیہ یہی ہے کہ انہیں حصول پاکستان کے بعد کیا کرنا ہے اس اہم معاملے پر سوچنا گوارہ ہی نہیں کیا سو، قیام پاکستان کے بعد مطمئن ہوگئے اور ان کا اطمینان قوم کو غیر مطمئن کرنے کا سبب بن گیا، کچھ ایسا ہی معاملہ عمران خان کے ساتھ بھی ہے، وزارت عظمیٰ کے حصول کے بعد وہ بھی مطمئن دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کے مخالفین خاص کر پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ عمران خان نے سو دنوں میں ایک سو ایک یوٹرن لیے ہیں مگر وہ یہ بھول رہے ہیں کہ سب سے پہلا اور بڑا یوٹرن ان کے قائد بلاول زرداری نے لیا ہے وہ زرداری سے بھٹو بن گئے ہیں۔
عوام کی نظر میں یوٹرن لینے والا تھالی کا بینگن ہوتا ہے کسی بھی معاملے میں یکسو نہیں ہوتا، لڑھکتا ہی رہتا ہے کبھی اِدھر کبھی اُدھر۔ ہومیوپیتھی فلسفے کے مطابق ایسا آدمی ذہنی مریض ہوتا ہے، فیصلہ کن کردار ادا کرنے کا اہل نہیں ہوتا، کبھی تولہ کبھی ماشا، ایسے آدمی کے بارے میں سیانوں نے کہا ہے، پٹھان کا پوت، گھڑی میں ولی گھڑی میں بھوت۔ تحریک انصاف والے عمران خان کی کارکردگی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر سونے والوں کے لیے پناہ گاہیں بنائی جارہی ہیں، بھوکا سونے والوں کے لیے دستر خوان سجائے جارہے ہیں، مگر عمران خان کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہونے والے اسے خیالی پلاؤ کا نام دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ شخص غریبوں کو کیا ریلیف دے گا جس نے غریب طلبہ کو ہر ماہ تین ہزار روپے کا وظیفہ بند کردیا ہو۔ جی ہاں! پرانے پاکستان میں غریب طلبا کو وظیفہ ملتا تھا، بیت المال سے یتیموں اور بیواؤں کو جو مالی امداد ملتی تھی اب نہیں ملتی، کہنے والے برملا کہتے ہیں کہ وہ رقم عمران فنڈ میں چلی گئی ہے۔ گویا پہلے زرداری فنڈ مشہور تھا اب عمران فنڈ متعارف کرایا جارہا ہے۔ تو پھر۔۔۔ نیا پاکستان کہاں ہے!؟۔ عمران خان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ قومی لیڈر کا ذہین ہونا ہی کافی اور شافی نہیں ہوتا ذہانت کے ساتھ خلوص بھی ضروری ہے، خلوص کے بغیر ذہانت فلاح وبہبود کا باعث نہیں بنتی۔ اللہ تعالیٰ نے عمران خان کو ذہانت کے ساتھ خلوص و محبت کی دولت سے بھی نوازا ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ نوازش کہیں نواز شریف نہ بن جائے۔ عمران خان جب بھی یوٹرن لیتے ہیں اس کے پیچھے ملک و قوم کا اخلاص ہوتا، ملکی اور قومی مفاد میں یوٹرن کو ’’انا‘‘ کا مسئلہ بنانے والے ملک و قوم سے مخلص نہیں ہوتے مگر مسئلہ یہ ہے کہ یوٹرن لینے والا تھالی کا بینگن سمجھا جاتا ہے اور جمہوریت میں عوام کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان حقیقی یوٹرن سے گھبراتے ہیں ورنہ۔۔۔ ’’سونامی‘‘ کے معاملے میں بھی یوٹرن لیتے، سونامی کبھی خیر و برکت کا سبب نہیں ہوتا۔ تباہی اور بربادی اس کی فطرت میں شامل ہے۔ شاید یہ اس کی نحوست ہے کہ قوم مہنگائی کے سونامی میں پھنس چکی ہے۔