امریکی صدر کی ہرزہ سرائی 

162

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے امریکا کے لیے کوئی ایک کام بھی نہیں کیا بلکہ پاکستان نے اسامہ بن لادن کو پناہ دینے میں بھی مدد کی تھی۔ صدر ٹرمپ نے امریکی ٹی وی چینل فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پاکستان کو ہر سال ایک ارب 30 کروڑ ڈالر کی امداد دے رہے تھے لیکن اب مزید یہ رقم نہیں دی جائے گی کیوں کہ پاکستان نے امریکا کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ صدر ٹرمپ کے بیان پر وزیراعظم عمران خان کا امریکی صدر کو ان الفاظ کے ساتھ آڑے ہاتھوں لینا ایک جرات مندانہ اقدام ہے کہ نائن الیون حملوں میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا پھر بھی پاکستان نے امریکا کی جنگ میں ساتھ دیا اور 75ہزار جانیں قربان کیں۔ وزیراعظم کا امریکی صدر سے یہ سوال بھی بجا ہے کہ کیا امریکا کے کسی اور اتحادی ملک نے اتنی قربانیاں دیں ہیں جتنی پاکستان کے حصے میں آئی ہیں۔ کیا امریکا اس واضح حقیقت کو ردکرسکتا ہے کہ اس نام نہاد امریکی جنگ کے نتیجے میں پاکستانی معیشت کو 123 ارب ڈالرز سے زاید کا نقصان ہوا جبکہ اس کے مقابلے میں امریکا نے پاکستان کو صرف 20ارب ڈالر امداد دی۔ دراصل امریکی صدر کو افغان جنگ میں ناکامی پر پاکستان کو موردالزام ٹھیرانے کے بجائے اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ڈیڑھ لاکھ ناٹو افواج، ڈھائی لاکھ افغان افواج اور ایک ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے باوجود افغانستان میں آج بھی امریکی افواج کی عملداری کے بجائے طالبان کا توتی کیوں بولتا ہے۔
امریکی صدر کا متذکرہ انٹرویو تاریخی حقائق کے منافی ہی نہیں بلکہ یہ لب ولہجہ ایک ایسے آزاد اور خودمختار ملک کی کھلم کھلا توہین ہے جس نے ماضی میں ہر سخت وقت میں امریکا کا نہ صرف ساتھ دیا ہے بلکہ کئی مواقع پر پاکستان کو اس کی بھاری قیمت بھی چکانی پڑی ہے۔ صدرٹرمپ پاکستان کے خلاف غیر سفارتی لب ولہجہ استعمال کرتے ہوئے بھول رہے ہیں کہ پاکستان وہ ملک ہے جس نے عوام کی خواہشات کے منافی امریکا کو بڈھ بیر اور شمسی ائر بیس دیے۔ کیا امریکا ان ڈرون حملوں کا کوئی جواز پیش کرسکتا ہے جن کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ قبائلی شہری رزق خاک ہوئے۔ امریکا کی معمولی مالی امداد کے مقابلے میں پاکستان نے پہلے سوویت یونین اور بعدازاں دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں اب تک جو مالی، جانی اور معاشرتی قربانیاں دی ہیں وہ اس نام نہاد مالی امداد کا نعم البدل ہرگز نہیں ہو سکتی ہیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان کے ذریعے بجا طور پر کہا ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے پاکستان نے کسی بھی ملک سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کے لیے ہم اپنی کاوشیں جاری رکھیں گے لیکن پاکستان کی عزت اور سلامتی ہمیشہ اولین ترجیح ہوگی۔
سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے امریکی ناظم الامور پال جونز کو دفتر خارجہ طلب کرکے انہیں نہ صرف احتجاجی مراسلہ تھمایا بلکہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے امریکی صدر کی حالیہ ٹویٹس پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ القاعدہ کے خلاف جنگ میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا، ان تمام اقدامات کے باوجود اس قسم کے بیانات ناقابل قبول ہیں۔ سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بہت بھاری قیمت ادا کی ہے اور خطے کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے ہماری کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا کو یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ القاعدہ کی اعلیٰ قیادت پاکستان کے تعاون کے باعث ہی پکڑی یا ماری گئی اور القاعدہ کی لیڈر شپ کو پکڑنے میں پاکستان کی کاوشوں کو امریکا نے بارہا تسلیم کیا ہے۔ ترجمان نے امریکی ناظم الامور کو یہ بھی باور کروایا کہ پاکستان نے افغان جنگ کے لیے اپنے فضائی، زمینی اور سمندری راستے فراہم کیے اور وہ امریکا اور خطے کے دیگر ممالک سے مل کر افغان جنگ کے خاتمے اور مفاہمتی عمل کے لیے کوشاں ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر کی پاکستان کے خلاف حالیہ ہزرہ سرائی کے ڈانڈے دراصل اس تلخ حقیقت سے ملتے ہیں جس کے مطابق افغانستان میں سترہ سال کی مسلسل فوج کشی اور جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی کے بے تحاشا استعمال کے باوجود آج بھی افغانستان کے ساٹھ سے ستر فی صد رقبے پر طالبان کا قبضہ ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے جس کا اعتراف امریکا کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل جوزف ڈن فورڈ کے اس بیان سے سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان ہارے نہیں، 17برس کی جنگ کے بعد بھی ان کی پوزیشن کافی مضبوط ہے اور ہمیں ان کی مضبوط پوزیشن کو تسلیم کرلینا چاہیے، طالبان بات چیت کے لیے تیار ہوجائیں تو یہ ہماری بڑی کامیابی ہوگی۔ جنرل جوزف کا طالبان کے حوالے سے یہ لچک دار رویہ اس وقت سامنے آیا ہے جب امریکا کے افغان امن مذاکرات کے لیے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد امن مذاکرات کے سلسلے میں طالبان کے ساتھ دوحا دفتر کے توسط سے مذاکرات کا دوسرا دور مکمل کر کے کابل پہنچے تھے لہٰذا اس پس منظر کومد نظر رکھتے ہوئے کسی کے لیے بھی امریکی صدر کی پاکستان کے متعلق استعمال کی جانے والی تلخ وترش زبان کو سمجھنا مشکل نہیں ہوگا۔