آئی ایم ایف کی شرائط اب بھی مسلط ہیں

97

اخباری اطلاعات اور حکومتی بیانات سے یہ تاثر پیدا کیا گیا تھا کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں اور پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرض نہ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ لیکن ڈالر کو لگنے والے پر عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں انتہائی کم ہونے کے باوجود پاکستان میں اس کے اثرات نہ ہونے کے علاوہ ایک نہایت اہم بات سامنے آئی ہے جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے مسلسل رابطے میں ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق گیس کے ذریعے صارفین پر 91 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔سوئی ناردرن گیس نے اوگرا سے درخواست کی ہے کہ گیس 215، ایل این جی 103،ایل پی جی 4 ہزار 295 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مہنگی کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس پر طرہ یہ کہ اگر کہیں گیس چوری ہورہی ہے تو اس کا نقصان بھی صارفین سے وصول کیا جائے۔ اوگرا دس دسمبر کو اس درخواست کی سماعت کرے گی۔ عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ نہایت غیر حقیقی انداز میں مطالبات اور سفارشات پیش کردی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں صارفین پر ایک خوف کی فضا طاری ہوجاتی ہے اس کے بعد وزیراعظم، کابینہ یا حکومت کے کسی ذمے دار کی جانب سے اعلان ہوتا ہے کہ یہ تو عوام پر ظلم ہے۔ اضافے ذرا کم کیے جائیں۔ یوں عوام کو موت دکھاکر بخار قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اگر اوگرا نے گیس کمپنی کی سفارشات یا تجاویز کو جوں کا توں منظور بھی کرلیا تو وزیراعظم یا کابینہ اس میں تخفیف کردیں گے اور واہ واہ ہوجائے گی۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آئی ایم ایف سے مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں اور سعودی عرب اور چین سے شاندار امداد ملی ہے تو پھر عوام کو مزید مشکل میں کیوں ڈالا جارہاہے۔ اور یہ جو تجویز ہے کہ گیس چوری کا نقصان بھی صارفین سے وصول کیا جائے یہ نہایت نامعقول ہے گیس ہو، بجلی یا لائن کے ذریعے فراہم کیا جانے والا پانی اور تیل ان سب کی چوری میں ہمیشہ محکمے کے لوگ ملوث ہوتے ہیں۔ وہی لوگ بھاری رقوم کے عوض چور دروازے کھولتے ہیں۔ اگر کہیں بھی گیس چوری پکڑی جائے تو صرف متعلقہ چور سے اس کر ہرجانہ وصول کیا جائے اور اس کو سہولت دینے والے سرکاری افسران اور عملے کو گرفت میں لیا جائے، تمام صارفین پر یہ خسارہ تقسیم کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ لیکن حکومت کے کسی فرد میں سنجیدگی نام کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی کہ اس قسم کے معاملات میں عوام اور صارفین کا تحفظ کرنا ہی حکومت کی ذمے داری ہے۔ اس جانب خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔