بے کار مباش کچھ کیا کر

236

اسے پاکستان کی تباہ حال معیشت کو سنبھالا دینے کا ایک اور اقدام قرار دیا جاسکتا ہے کہ گورنر ہاؤس پنجاب کی دیواریں گرا دی جائیں اور ان کی جگہ کروڑوں روپے خرچ کر کے جنگلا لگا دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ دیواریں گرانے اور جنگلا لگانے سے لوگوں کو روزگار ملے گا اور ایک کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کے وعدے کی کسی قدر تکمیل ہوسکے گی۔ لیکن عدالت نے دیواریں گرانے پر پابندی لگادی ہے۔ وزیر اعظم کے حکم پر دیواریں گرانے کا منصوبہ بنایا گیا کہ مال روڈ سے گزرنے والے عام لوگ بھی اس شاندار عمارت کا واضح نظارہ کرسکیں اور خوش ہو جائیں۔ گورنر ہاؤس پنجاب برطانوی دور حکومت کی نشانی ہے اور یہ وہ نقش کہن ہے جس کا مٹانا ضروری سمجھا گیا حالاں کہ یہ لاہور کی شان سمجھا جاتا رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دیواریں اٹھانے والے اگر دیواریں گرانے پر تل گئے ہیں تو یہ ایک اچھی علامت ہے۔ لیکن اب دیواروں کی جگہ فولادی جنگلے لگانے کی سوجھ گئی ہے جس پر 7کروڑ لاگت آئے گی۔ اعتراض کرنے والوں کا موقف ہے کہ گورنر ہاؤس کی دیواریں گرانا آثار قدیمہ کے تحفظ کے ایکٹ مجریہ 1975ء کے خلاف ہے لیکن حکومت کا جواب ہے کہ اصل عمارت تو نہیں گرا رہے۔ گزشتہ اتوار کو انہدامی کارروائی کا آغاز10 فٹ اونچی دیواروں پر لگے ہوئے خاردار تار ہٹانے سے ہوا ہے۔ ممکن ہے ان فولادی تاروں کو لوہے کی منڈی میں بیچ کر کچھ منافع حاصل کرلیا جاتا مگر عدالت رکاوٹ بن گئی ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ گورنر ہاؤس کی دیواریں گرانے اور اصل عمارت کا نظارہ عام کرنے سے ایک عام آدمی کو کیا فائدہ ہوگا ؟ کیا وہ باہر سے اس عمارت کا نظارہ کر کے خوشی میں اپنے غم بھول جائے گا اور اس کا پیٹ اسی سے بھر جائے گا ؟ کیا یہ منصوبہ بھی انڈے اور مرغی فراہم کرنے اور کٹّے پالنے کے عظیم منصوبے کی طرح نہیں ہے؟ چلیے ! گورنر ہاؤس کا احاطہ عوام کے لیے کھول دیا جائے گا اور لوگ اس کے باغات میں گھومیں پھریں گے، تب؟ کیا اس میں داخلے کے لیے ٹکٹ لگا کر خزانے کو بھرا جائے گا یا کیا فائدہ ہوگا؟ یہ صحیح ہے کہ گورنر ہاؤس کا رقبہ بہت بڑا ہے اور اس کی دیکھ بھال پر خرچ بھی ہوتا ہے تو کیا یہ بہتر نہیں کہ اس کو تالا لگا دیا جائے۔ یا پھر سیکڑوں کنال اراضی ان بے گھروں کو دے دی جائے جن کے لیے 50لاکھ گھروں کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ابھی تو عدالت نے کام رکوا دیا ہے لیکن حکومت کے عزائم ہر گورنر ہاؤس کو توڑنے کے ہیں۔ کراچی کا تاریخی گورنر ہاؤس بھی زد میں ہے۔ اس کے لیے کسی نے تجویز پیش کی ہے کہ جو سیکڑوں، ہزاروں دکانیں گرا دی گئی ہیں ان کے مالکان کو گورنر ہاؤس میں دکانیں الاٹ کردی جائیں۔ مگر وزیر اعلیٰ سندھ کہتے ہیں کہ ہم گورنر ہاؤس کراچی کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیں گے۔ سوال صرف ایک ہے کہ گورنر ہاؤس کی حدود میں داخل ہونے کا اعزاز حاصل کرنے والوں کو اور ملک کی معیشت کو کتنا فائدہ ہوگا؟ وزیر اعظم ہاؤس کی باری کب آئے گی؟