انسداد تجاوزات، آپریشن ایک مذاق اور خدشات!

165

تجاوزات کے خلاف عدالت عظمیٰ کے حکم کی آڑ میں بالآخر وہی کچھ ہونے جارہا ہے جس کے خدشات تھے۔ ڈر یہی تھا کہ اس آپریشن کے نتیجے میں وہ کچھ نہیں ہوگا جو ہونا چاہیے، فٹ پاتھ اور سڑکوں کو کلیئر نہیں کرایا جاسکے گا۔ رفاہی پلاٹوں پر چائنا کٹنگ اور لاڑکانہ کٹنگ کے ذریعے تخلیق کیے گئے پلاٹوں سے ناجائز تعمیرات کا خاتمہ نہیں ہوگا اور نہ ہی پارکوں و گرین بیلٹس کی زمینوں کو واگزار کیا جائے گا۔ شہر میں جاری انسداد تجاوزات آپریشن کا جائزہ لیا جائے تو یہی کچھ نظر آتا ہے۔ جب کہ کے ایم سی نے اپنی رپورٹ میں وضاحت کردی کہ ضلع ملیر اور ڈسٹرکٹ کونسل کراچی کی حدود میں کوئی آپریشن ہی نہیں کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ ڈی ایم سی ملیر اور ڈی سی کراچی کی حدود کو کیوں اس آپریشن سے مستثنٰی قرار دیا گیا؟ کیا ان کی حدود میں کسی قسم کی تجاوزات اور ناجائز تعمیرات بھی موجود نہیں ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ مزکورہ دونوں اداروں کی حدود میں 80 فی صد تعمیرات خلاف قانون ہیں کم و بیش 40 فی صد سرکاری زمین پر قبضہ ہے مگر اس کے باوجود یہاں کبھی بھی اس طرح کی کارروائی نہیں کی جاتی کیوں کہ کہ ان دونوں بلدیاتی کونسلز کی حدود میں اس طرح کی تعمیرات اور قبضوں کا تعلق پیپلز پارٹی کے ووٹرز اور وزراء یا بااثر شخصیات سے ہے۔ یہاں تجاوزات و رفاہی پلاٹوں پر کارروائی نہ کیا جانا کسی اور کے لیے نہیں بلکہ عدالت عظمیٰ کے لیے لمحہ فکر ہوگا۔ ڈسٹرکٹ کونسل کراچی اور ڈسٹرکٹ ملیر کا ذکر تو سرکاری رپورٹ میں کیا گیا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ ضلع غربی اور کورنگی میں بھی 85 فی صد حصوں کو آپریشن کی زد میں نہیں لایا گیا۔ یہ آپریشن تو صرف کراچی کو ریونیو دینے والے ضلع جنوبی میں وہ بھی صرف تجارتی علاقوں میں کیا گیا۔ جب کہ ضلع شرقی میں بھی منتخب مقامات پر کیا گیا اور کرایا جارہا ہے۔ بلدیہ عظمٰی اور ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنوں کا ہدف صرف پکی اور الاٹ کرائی گئی قانونی تعمیرات میں کی جانے والی معمولی خلاف ورزیوں پر کارروائی کرنا لگتا ہے۔ جب کہ شہر کے کسی بڑے پارک اور کھیل کے میدان سے قبضوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاسکی۔ سفاری پارک، ہل پارک، عزیز بھٹی پارک، جھیل پارک، کڈنی ہل پارک، باغ ابن قاسم، پردہ پارک کلفٹن سمیت شہر کے متعدد پارکوں اور رفاہی پلاٹوں پر ناجائز اور غیر قانونی تعمیرات جوں کی توں ہیں۔ بیش تر سڑکوں کا حال بھی وہی ہے۔ مذکورہ پارکوں، رفاہی پلاٹوں، ضلع ملیر میونسپل کارپوریشن، ڈسٹرکٹ کونسل کراچی اور دیگر علاقوں میں غیرقانونی تعمیرات اور تجاوزات کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی تو پورا آپریشن ہی متنازع ہوجائے گا اور لوگ یہ یقین کرنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ یہ صرف کراچی کے حقیقی کاروباری لوگوں اور الاٹیڈ تعمیرات کے خلاف تھا۔
بہت اہم اور دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے لیے بلدیہ عظمٰی عدالت کے حکم کے خلاف تعینات کیے جانے والے گریڈ 18 کے افسر سے کام لے رہی ہے جو سینئر ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ کی اہم پوسٹ پر خدمات انجام دے رہا ہے۔ موصوف متحدہ کے سابق سیکٹر انچارج رہنے کا بھی طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ قانون کے ساتھ مذاق نہیں تو پھر کیا ہے؟ کم گریڈ کے افسران سے اہم ترین کام کروا کر کس کو کیا پیغام دیا جارہا ہے، یہ سمجھنا مشکل ہے۔ مگر یہ کہا جاسکتا ہے اس عمل میں میٹروپولیٹن کمشنر اور میئر براہ راست ملوث ہیں کیوں کہ ان کے حکم کے بغیر کوئی تعیناتی اور کسی آپریشن پر کے ایم سی میں عمل درآمد نہیں ہوسکتا۔
کراچی کے شہریوں کو یہی خدشات تو تھے کہ رفاہی پلاٹوں پر چائنا کٹنگ اور لاڑکانہ کٹنگ کرکے ان پر رہائشی اور تجارتی غیر قانونی تعمیرات کرنے والے بااثر عناصر کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی اور ان ہی تعمیرات کو توڑا جائے گا جو قانون کے مطابق یا معمولی خلاف ورزی کے تحت بنائی گئیں ہیں۔ جب کہ مکمل خلاف قانون تعمیرات کو قانونی حیثیت دے دی جائے گی۔ ان خدشات کے عین مطابق وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ ’’ہم کراچی میں کسی کے گھر کو نہیں توڑیں گے اور اگر اس حوالے سے عدلیہ کے کوئی احکامات آئے تو سندھ حکومت اس سلسلے میں عدالتوں کو خود درخواست دے گی‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کے احکامات پر عمل درآمد ہماری ذمے داری ہے لیکن اس سے زیادہ اس کے متاثرین کی بحالی ہماری اولین ترجیح ہے۔ جلد ہی کراچی میں کے ایم سی اور سندھ حکومت کی خالی زمینوں پر مارکیٹوں کی تعمیر کا کام شروع کردیا جائے گا۔ یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے حکم پر حکمرانوں اور میئر وسیم اختر نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ اس حکم پر عمل درآمد سے شہریوں اور شہر کا کتنا نقصان ہوگا؟
سوال یہ بھی ہے کہ ناجائز تعمیرات میں ملوث اور بغیر منصوبہ بندی کے تجاوزات کے خلاف آپریشن کرنے والوں کے خلاف کون کارروائی کرے گا؟ سندھ حکومت اور بلدیہ کراچی کے کرپٹ عناصر شہر میں نہ صرف سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضوں اور تعمیرات میں ملوث ہیں بلکہ ان کی اب تک پشت پناہی بھی یہی لوگ کیا کرتے تھے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عدالت عظمیٰ عدالتی سطح پر تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے کر 2008 سے لے کر 2018 تک زمینوں پر قبضوں اور ان پر تعمیرات کرانے والوں کے خلاف تحقیقات کرائے اور اس کے اصل دمے داروں کو قانون کی گرفت میں لاکر انہیں سزا دے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو سرکاری زمینوں کی بندر بانٹ اور ان پر ناجائز تعمیرات کا سلسلہ ہمیشہ چلتا رہے گا۔ عدالت کو ملیر اور لیاری ندی کے اندر اور اس کے کناروں پر تعمیرات کے حوالے سے بھی تحقیقات کرانی چاہیے۔ کسی سیاسی ادارے پر اب لوگوں کو اعتماد بھی تو نہیں رہا۔ جلدی کیجیے کہیں منتخب اور غیر منتخب عناصر فرار نہ ہوجائیں۔