لبرل ازم کے علمبردار ’’دی اکانومسٹ‘‘ نے لکھا ہے: ’’لبرل ازم کبھی ایک فلسفہ تھا مگر اب ایک وسیع تر عقیدہ بن چکا ہے‘‘۔ ہمارے ایک دانشور نے اسے لائف اسٹائل یا طرزِ زندگی سے تعبیر کیا ہے، جنرل پرویز مشرف کے دور میں اسے ’’روشن خیال اعتدال پسندی‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ الغرض اب اہلِ مغرب نے تسلیم کرلیا ہے کہ لبرل ازم مذہب کے مقابل ایک متوازی عقیدہ یا نظریہ ہے۔ لبرل ازم کی اساس کیا ہے، میں نے گزشتہ چند برسوں میں امریکا کے دورے کے درمیان مغربی معاشرے کی بُنَت اور تانے بانے کو سمجھنے کے لیے وہاں علومِ جدیدہ کے ماہرین سے تبادلہ خیال کیا ہے، سو میری نظر میں لبرل ازم کی اساس ان امور پر ہے:
(1) عقلِ محض: اہلِ مغرب اور ان کے پیروکاروں نے عقلِ محض کو حق وباطل کی پہچان کے لیے کسوٹی بنالیا ہے۔ عملی تجربے سے ثابت ہوا کہ اس کا مدار عقلِ سلیم (Discerning Wisdom) پر نہیں ہے، جو قرآنِ کریم کی رو سے ایک حد تک انسان کو نیکی اور بدی کا شعور عطا کرتا ہے، یہ وجودِ بشر میں اللہ تعالیٰ کی ایک بے پایاں نعمت ہے، چناں چہ فرمایا: ’’پھر (نفسِ انسانی) کو اس کی نیکی اور بدی کا شعور عطا کردیا، (الشمس:8)‘‘، اسی طرح فرمایا: ’’کیا ہم نے اسے دو آنکھیں، ایک زبان اور دو ہونٹ عطا نہیں کیے، اور (خیر وشر کی) دونوں راہیں اُسے سجھا (نہیں) دیں، (البلد: 8-10)‘‘، قرآن کریم نے اسے نفسِ لوّامہ سے تعبیر کیا ہے، اردو میں اسے ’’ضمیر‘‘ اور انگریزی میں ’’Conscience‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ چناں چہ ایک طرف وہ انسانی صحت پر دو مردوں اور دو عورتوں کے مابین بدفعلی (Homosexuality) کے نتیجے میں مرتّب ہونے والے نقصانات بتاتے ہیں اور دوسری جانب اُسے قانونی جواز عطا کرتے ہیں، پاکیزہ اخلاقیات ان کے نظریے میں شامل نہیں ہیں۔ اُن کے نزدیک بالغ مرد اور عورت کے درمیان زنا بالرضا مطلقاً جائز، البتہ جبری آبروریزی کو وہ ناجائز قرار دیتے ہیں۔ یہ وہی نظریہ ہے جس کا اظہار کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں ایک مظاہرے کے دوران لبرل خواتین نے یہ پلے کارڈ اٹھا کر کیا تھا: ’’میرا جسم، میری مرضی‘‘۔ یعنی وہ جائز اور ناجائز کے بارے میں کسی الٰہی ہدایت یا احکام کو ماننے کے روادار نہیں ہیں، جبکہ دین کا تصور تو یہ ہے کہ جسم اور روح کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ ہے، لہٰذا بندے کو اس کے احکام اور ہدایات کے مطابق اپنے جسم پر تصرف کرنا ہوگا۔ الغرض کسی نہ کسی درجے میں انہوں نے عقلِ اجماعی یا اکثری کو العیاذ باللہ! خدائی مقام عطا کردیا ہے، قرآنِ کریم نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے: (الف): ’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا، جس نے اپنی خواہش کو معبود بنالیا ہے، (الفرقان: 43)‘‘ (ب): اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہوگا جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کی پیروی کرے، (القصص: 50)‘‘۔
(2) انہوں نے یہ مفروضہ بنا لیا ہے کہ کسی خطے میں رہنے والے انسانوں کی دانشِ کُلّی یا اکثری غلط نہیں ہوسکتی، اسے جمہوریت کا پُر فریب عنوان دیا ہے۔ قومِ لوط نے اپنی عقلی اُپَج سے الٰہی ہدایات کو رد کیا، قرآن کریم نے ان کی بابت فرمایا: ’’کیا تم مردوں سے بدفعلی کرتے ہو اور ڈاکہ زنی کرتے ہو اور تم اپنی مجلسوں میں (عَلانیہ) بے حیائی کا کام کرتے ہو، تواُن کا جواب صرف یہ تھا: اگر تم سچے ہو تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ، (العنکبوت: 29)‘‘۔ پھر فرمایا: ’’سو جب ہمارا عذاب آپہنچا تو ہم نے اس بستی کو تلپٹ کردیا اور ہم نے ان پرلگاتار آگ میں پکے ہوئے پتھر برسائے، جو آپ کے ربّ کی طرف سے نشان زدہ تھے، (ہود: 82-83)‘‘۔ قرآنِ کریم میں قومِ عاد، قومِ ثمود، قومِ نوح، فرعونِ موسیٰ اور دیگر اقوام کے انجام کا تذکرہ موجود ہے۔ یہ سب اقوام اپنے آباء واجداد کے شِعار یعنی طرزِ زندگی کو دلیلِ حق اور ناقابلِ تردید حجت آنے کے باوجود ترک کرنے پر تیار نہیں تھے اور بالآخر اُن کی سرکشی کی پاداش میں انہیں صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا۔
اجتماعی دانش، جس کو وہ جمہوریت سے تعبیر کرتے ہیں، وہ اپنی پوری حقیقت کے ساتھ کہیں بھی موجود نہیں ہے، اس اصطلاح کو پرکشش بنا کر وہ اپنے فساد اور مظالم کو چھپانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اُن کے رہنما اور اہلِ اقتدار نہ صرف دوسری کمزور اقوام بلکہ اپنی قوم کے کمزور اور بے وسیلہ لوگوں کا بھی استیصال کرتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام، جسے ہم کارپوریٹ کلچر سے تعبیر کرتے ہیں، کا مدار ہی دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز پر ہے۔
(3) خود غرضی: اگر کمزور انسان زمین کے کسی خطے میں لاکھوں کی تعداد میں پیاس سے بلک بلک کر مر رہے ہوں اور سرمایہ دار سمجھتا ہے کہ شراب کشید کرنے اور فروخت کرنے میں زیادہ نفع ہے، تو وہ پیاسے انسانوں کو تڑپتا چھوڑ کر شراب کے کاروبار کو فروغ دے گا۔ اسی طرح اہلِ مغرب کا دعویٰ ہے: ’’دنیا کی آبادی کا چالیس فی صد خطِ غربت سے نیچے ہے‘‘، لیکن وہ انہیں بھوک وپیاس میں مبتلا اور چھت سے محروم رکھ کر انتہائی قیمتی اور تباہ کن اسلحہ بنانے میں مگن ہیں، حالاں کہ اگر تباہ کن اور مُہلک اسلحے پر خرچ ہونے والی رقم کا ایک معتد بہ حصہ غربت مٹانے پر خرچ کیا جائے تو دنیا سے غربت کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے۔ لیکن اُن کا نصب العین حربی طاقت سے دنیا کو غلام بنانا اور من پسند ایجنڈے پر چلانا ہے، یہ خود غرضی اور شقاوتِ قلبی کی انتہا ہے۔ ترقی پزیر اور پس ماندہ ممالک کی حکومتیں بھی اپنی بقا کے لیے اپنے عوام کے ساتھ یہی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔ خود غرضی کی اس جِبِلَّت سے ان کے ہاں خاندانی نظام کا تاروپود بکھر چکا ہے، وہ نکاح پر زنا کو ترجیح دیتے ہیں، حیوانات کی طرح نسبت پدری سے محروم ہیں، ایک بڑی تعداد کو اپنے باپ کا نام ہی نہیں معلوم، اسی لیے پاسپورٹ اور تمام دستاویزات میں صرف ماں کا نام پوچھا جاتا ہے اور یہ حیوانات ہیں جن کا نسب ان کی ماں سے چلتا ہے، جب کہ رسول اللہؐ کا فرمان ہے: ’’ بے شک تمہیں قیامت کے دن تمہارے اپنے اور تمہارے باپوں کے نام سے پکارا جائے گا، (ابوداؤد)‘‘۔
واستکبار: اسلام بتاتا ہے:
سروری زیبا فقط اُس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی، باقی بتانِ آزری
اسی لیے صرف اُس کی صفت ’’متکبر‘‘ ہے، بندگی عَجز ونیاز کا نام ہے اور متکبر گویا شانِ الوہیت کو چیلنج کرتا ہے، حدیث پاک میں فرمایا: ’’کبریائی میری رِدائے (الوہیت) ہے اور عظمت میری ازار ہے، سو جو ان کی بابت مجھ سے ٹکرائے گا، میں اُسے جہنم میں جھونک دوں گا، (ابن ماجہ)‘‘۔العِیاذُ باللہ! نائن الیون کے بعد امریکی صدر بش نے ایسا ہی خدائی دعویٰ کیا تھا: ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جنگ ہم ہی جیتیں گے‘‘، اس کے بعد کئی ملک تاراج ہوئے، انسانوں سے رچی بسی بستیاں کھنڈر بنادی گئیں، کئی ملین انسان لقمۂ اجل بنے، بڑی تعداد میں لوگ مستقل طور پر معذور ہوگئے، لاتعداد بچے پدری سہارے سے محروم ہوکر یتیم ہوگئے، آبروریزیاں ہوئیں، بعض ہجرت کے دوران غرقِ آب ہوئے، بعض ابھی تک دربدر ہیں، بچے خوراک اور علاج کو ترس رہے ہیں، لیکن جس مزعومہ فتح کی انسانیت نے اتنی قیمت چکائی، وہ ابھی تک ایک سَراب ہے۔
اگر ہم لبرل ازم کو دو جملوں میں سمیٹنا چاہیں تو یہ مادّہ کی عبادت اور ہوائے نفس کی غلامی ہے، اس کی معراج اتباعِ ہوائے نفس، لذتِ نظر، لذتِ سماع، لذتِ کام ودہن اور لذتِ شَمّ ہے۔ ماں، بیوی، بیٹی اور بہن کی حیثیت سے نسوانیت کے تقدس کو پامال کر کے اسے مساوات اور آزادی کے پر فریب نعرے سے ایک کھلونا بنادیا گیا ہے، جو صبح سے شام تک جُتی رہتی ہے۔ ایک مصری ادیب لطفی منفلوطی نے ایک معنی خیز جملہ لکھا تھا: ’’مغربی سماج کہتا ہے: جس سے محبت ہوجائے، اسی سے شادی کرو اور اسلام کہتا ہے: جس سے شادی ہوجائے اسی سے محبت کرو‘‘، یعنی عورت کی عفت وپاکدامنی اور حیا شوہر کی اور مرد کی محبت عورت کی امانت ہے۔ ایک اور معبود دولت ہے، دولت قاضیُ الحاجات ہے، دولت دافعِ البلِیّات ہے، دولت سے محبت خریدو، ضمیر خریدو اور آزادی خریدو، انسانیت کو بازاری جنس بنالو۔
(5) عصبیت اور نسل پرستی: یہ عفریت جو کبھی مغرب میں سات پردوں میں ملفوف تھا، اب عیاں ہوکر سامنے آگیا ہے، یورپ میں انتہائی دائیں بازوکی نسل پرست جماعتیں ہٹلر اور مسولینی کی طرح جمہوریت کے راستے اقتدار کے دروازے پر کھڑی ہیں اعتدال پسندی عَنقا ہے، وہاں تارکینِ وطن کے خلاف ایک تحریک برپا ہونے کو ہے۔
ماضی میں مغرب نے اپنے عوام کو مفادات کا اسیر بنائے رکھنے کے لیے کمیونزم کے مزعومہ خطرے کو ایک مُہِیب خواب بناکر مسلط کر رکھا تھا، مگر سوویت یونین کا شیرازہ منتشر ہونے کے ساتھ ہی کمیونزم بھی بحیثیت نظام صفحۂ ہستی سے معدوم ہوگیا اور یوں پون صدی کی عمر میں یہ غیر فطری فلسفہ اور نظام قصۂ پارینہ بن گیا۔ اب اکیسویں صدی میں انہوں نے خوف کے سائے میں اپنی اقوام کو متحد وخوف زدہ رکھنے کے لیے اسلام کو اپنی تہذیب اور طرزِ زندگی کے لیے تباہ کن حقیقت کے طور پر پیش کرنا شروع کیا ہے۔ اسلام پر فساد بعنوان جہاد، دہشت گردی، انتہا پسندی، نفرت انگیزی اور شدت پسندی کے سیاسی فتوے لگا کر اپنے لائف اسٹائل اور نظام کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ کوئی مسلم حکمران اسلام کا حقیقی مدافع نہیں ہے، کیوں کہ ان کی اولین ترجیح ذاتی وگروہی اقتدار کا حصول، بقا اور دوام ہے۔ حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا ہے: ہمارے بغیر سعودی حکومت دو ہفتے بھی برقرار نہیں رہ سکتی۔
لبرل ازم کے ان تمام عنوانات اور مقاصد کو انہوں نے آزادی اور انسانیت پرستی یعنی Freedom & Humanism کا پرکشش عنوان دیا ہے تاکہ لوگوں کو اس کا اسیر بناکر اپنے حصار میں لیا جائے، اس کی رو سے انسان خود عابد بھی ہے اور معبود بھی، یہ اپنی خواہشات باطلہ کی پرستش کا خوبصورت عنوان ہے، لیکن پھر رنگ ونسل کی بنیاد پر انسانوں کو حاکم اورمحکوم دوخانوں میں تقسیم کردیا ہے۔ الغرض کلی آزادی اور حاکمیت صرف مغرب کو حاصل ہے اور باقی پر لازم ہے کہ ان کے اندھے پیروکار بنے یا غربت وپس ماندگی کی چکی میں پس کر نشانِ عبرت بنے رہیں، یہی ماضی کے فرعونوں کا نعرہ تھا: ’’میں تمہارا سب سے بلند تر ربّ ہوں، (النازعات: 24)‘‘۔