غلط فہمیاں کون پھیلا رہا ہے ؟

233

وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے اعلان کیا ہے کہ معاشی بحران ٹل گیا، غلط فہمیاں نہ پھیلائیں، کاروبار چلنے دیں۔ اگر واقعی ایسا ہوا ہے تو یہ ایک بڑی خوش خبری ہے لیکن معاشی بحران کا رونا تو عمران خان اور ان کے اوپننگ بیٹسمین جناب اسد عمر ہی روتے رہے ہیں کہ خزانہ بالکل خالی ہے اور جانے والے جھاڑو پھیر گئے، بڑی مشکلات کا سامنا ہے۔ یعنی حکومت خود غلط فہمیاں پھیلا رہی تھی جس کا بہت برا اثر کاروبار پر پڑا، اسٹاک مارکیٹ اب تک سنبھل نہیں سکی۔ چنانچہ اب اسد عمر کے دعوے پر یہ سوال کیا جائے گا کہ معاشی بحران کیسے ٹل گیا کیوں کہ حکمرانوں کی ملکوں ملکوں بھاگ دوڑ کے نتیجے میں اب تک صرف سعودی عرب سے ایک ارب ڈالر آئے ہیں باقی صرف وعدے ہیں یا سرمایہ کاری کے اعلانات۔ تو کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہو رہا کہ خطرناک معاشی بحران صرف ایک ارب ڈالر کی مار تھا اور حکمران ہی غلط فہمیاں پھیلا رہے تھے۔ گزشتہ جمعہ کو بینک دولت پاکستان نے اچانک روپے کی قیمت گرا کر ڈالر کی قدر میں ریکارڈ اضافہ کردیا اور ایک تماشا یہ ہوا کہ صرف 3گھنٹے بعد ڈالر نیچے آگیا۔ اس سے ایک بار پھر کاروباری طبقے میں خوف و ہراس پھیلا لیکن عجیب بات تو یہ ہوئی کہ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ مجھے تو خبریں دیکھ کر پتا چلا کہ ڈالر کی قیمت بڑھ گئی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ اکتوبر میں بھی یہی ہوا تھا اور وہ دونوں مرتبہ بے خبر رہے۔ دوسری طرف ان کے وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ گورنر اسٹیٹ بینک نے ان کو اعتماد میں لے کر جمعرات کی شب ہی یہ بتا دیا تھا کہ وہ کیا کرنے جارہے ہیں اور ڈالر کی قدر پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ اسد عمر کا یہ اعتراف بھی ریکارڈ پر ہے کہ انہوں نے ڈالر کی قیمت بڑھنے کی خبر وزیر اعظم کو دے دی تھی مگر وزیر اعظم کہتے ہیں کہ مجھے تو ٹی وی دیکھ کر معلوم ہوا۔ اب یہ کون طے کرے کہ عمران خان اور اسد عمر میں سے کون صحیح کہہ رہا ہے، ہم احتراماً جھوٹ بولنے کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتے، یہ فیصلہ دونوں بڑے آپس میں بیٹھ کر کرلیں۔ اور ایک محاورہ ہے کہ ’’ نزلہ برعضو ضعیف‘‘۔ عمران خان کی کابینہ میں اسد عمر ایک مضبوط وزیر ہیں اور نسبتاً معقول اور شائستہ بھی ہیں ۔ دو، چار برس رہ گئے تو وزارت خزانہ کی ذمے داریوں سے بھی آگاہ ہو جائیں گے۔ افواہیں تو یہ ہیں کہ کابینہ میں نہ رہتے ہوئے بھی جناب ترین کی جہانگیری چل رہی ہے۔ انتخابات میں عمران خان کو کامیاب کرانے کے لیے ان کی خدمات بھی بہت ہیں۔ جہانگیر ترین سے تلخی اسد عمر کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔ اسد عمر نے یہ بھی فرمایا ہے کہ مرکزی بینک اور وزارت خزانہ میں رابطے کا میکنزم بنایا جارہا ہے، اسٹیٹ بینک کی خود مختاری قائم رہے گی۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا میکنزم تو پہلے سے موجود ہے شاید وزیر خزانہ کے علم میں نہیں۔ آہستہ آہستہ ان کے علم میں آجائے گا، ابھی دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔ گزشتہ منگل کو اسلام آباد میں جنوبی ایشیائی اقتصادی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے اسد عمر نے بھی کہا کہ ملک میں جلد بھاری سرمایہ کاری آئے گی، برآمدات بڑھ رہی ہیں اور خسارے میں کمی آئی ہے۔ گویا سب اچھا ہے۔ اور اگر ایسا ہی ہے تو بہت اچھا ہے۔ لیکن پے در پے یوٹرن لینے اور غلط بیانیوں سے حکمرانوں پر سے عوام کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ اب وزیر اعظم نے مڈٹرم الیکشن کا شوشا چھوڑ دیا ہے۔ کیا اس سے غلط فہمیاں نہیں بڑھیں گی اور کاروباری طبقہ ہاتھ روک کر بیٹھ نہیں جائے گا کہ یہ بلبلاتا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ جائے۔ بیرون ملک بھی اچھا پیغام نہیں گیا کہ وقت سے پہلے انتخابات کے نتیجے میں جانے کس کی حکومت آئے۔ اب عمران خان کی ٹیم وضاحتیں کرتی پھر رہی ہے کہ ماضی کی کئی حکومتیں ایسی ہیں جو مدت پوری نہیں کر سکیں اور وسط مدتی انتخابات کا یہ مطلب نہیں کہ کل پرسوں ہی ایسا ہو جائے گا۔ کیا پتا یہ چار سال بعد ہوں۔ مگر کیا کسی حکومت نے صرف سو دن بعد ہی مڈٹرم الیکشن کرانے کا عندیہ دیا؟ عمران خان کی اس بات کو مختلف معانی پہنائے جارہے ہیں کہ کیا وزیر اعظم نے کسی کو پیغام دیا ہے کہ انہیں دو تہائی اکثریت دلوائی جائے۔ پیپلز پارٹی کے شریک صدر نشین آصف زرداری فرما رہے ہیں کہ حکومت کو خطرہ ہو تو وہی بچائیں گے جو لے کر آئے ہیں ۔ ایک اور متنازع بات عمران خان نے یہ کی ہے کہ اگر قومی اسمبلی اور سینیٹ سے کوئی قانون منظور نہ ہوا تو آرڈیننس کے ذریعے دستور سازی کی جائے گی۔ لیکن انہیں شاید کسی نے بتایا نہیں کہ آرڈیننس اس وقت آتا ہے جب قومی اسمبلی اور سینیٹ موجود نہ ہوں اور یہ آرڈیننس بھی محدود وقت کے لیے ہوتا ہے۔ ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ عمران خان کم سے کم بولیں، فواد چودھری پر نہ جائیں۔ اور جناب اسد عمر اینگرو فوڈ کمپنی اور ملک کی وزارت خزانہ میں فرق ملحوظ رکھیں۔