چاند کا تاریک پہلو

292

امریکیوں کا کوئی بھروسا نہیں۔ وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ وہ چراغ حیات ہی کو نہیں چاند کو بھی تاریک پہلو سے نواز سکتے ہیں۔ کیسے؟
یہ غالباً 1977ء یا 1978ء کا سال تھا۔ رات کے کھانے پر نہ جانے کیسے انسان کے چاند پر جانے کا ذکر شروع ہوا۔ اچانک ہمارے بڑے ماموں سید حافظ نفیس حسن جذباتی انداز میں گویا ہوئے۔
’’امریکی جھوٹ بولتے ہیں۔ وہ چاند پر نہیں گئے‘‘۔
’’مگر ماموں ساری دنیا نے ٹی وی پر دیکھا ہے امریکی چاند پر گئے ہیں‘‘۔ ہم نے عرض کیا۔
’’ایسا ممکن ہی نہیں۔ امریکیوں نے کسی اسٹوڈیو وغیرہ میں فلم بنالی اور اسے ٹی وی پر دکھا دیا‘‘۔
ماموں نے وثوق سے کہا۔ بات ختم ہوگئی۔
یہ آج سے دس بارہ سال پہلے کی بات ہے۔ جیو سے ایک دستاویزی فلم نشر ہوئی۔ فلم کا عنوان تھا ’’Dark Side Of The Moon‘‘۔ فلم کسی فرانسیسی کی بنائی ہوئی تھی۔ یہ دستاویزی فلم اتنی زبردست ہے کہ اس فلم کو دیکھ کر کوئی بھی شخص اس بات پر یقین کرلے گا کہ امریکی کبھی چاند پر نہیں گئے۔ ہم نے فلم دیکھی تو حیران ہوگئے۔ ہمیں اپنے ماموں کا تبصرہ یاد آگیا۔ ہمیں حیرانی اس بات پر تھی کہ برسوں پہلے جو کچھ ماموں نے ’’قیاس‘‘ کی بنیاد پر کہا تھا فلم میں وہی کچھ معلومات اور تجزیے کی بنیاد پر کہا جارہا تھا۔ ہم نے اس وقت اسی صفحے پر ایک کالم تحریر کیا تھا۔ عجیب بات دیکھیے کہ برسوں بعد ہمیں چاند کا تاریک پہلو نامی دستاویزی فلم ایک بار پھر یاد آئی ہے۔ اس کی وجہ روس سے آنے والی ایک خبر ہے۔
خبر کے مطابق خلائی تحقیق سے متعلق روس کے ادارے کے سربراہ نے کہا ہے کہ ان کا ملک جلد ہی ایک خلائی مشن روانہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مشن کا مقصد اس امر کی تحقیق کرنا ہے کہ 1969ء میں امریکی چاند پر گئے تھے یا نہیں؟۔ جیسا کہ ظاہر ہے اس خبر نے چاند کے تاریک پہلو کو مزید تاریک کردیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ دستاویزی فلم Dark Side of The Moon میں ہے کیا؟
زیر بحث دستاویزی فلم کا مضبوط ترین پہلو یہ ہے کہ فلم میں جو کچھ کہا گیا ہے شہادتوں کی مدد سے کہا گیا ہے اور شہادتیں دینے والوں میں امریکا کے سابق وزیر خارجہ ہینری کسنجر، امریکا کے سابق وزیر دفاع ڈونلڈ رمسفیلڈ، امریکا کے سابق وزیر خارجہ الیگزینڈر ہیگ اور سی آئی کے سابق سربراہ لارنس ایگل برگر جیسے لوگ شامل ہیں۔
دستاویزی فلم کے مطابق امریکی سی آئی اے کو 1966ء میں اطلاع ملی کہ امریکا کی حریف عالمی طاقت سوویت یونین چاند پر انسان کو اُتارنے کی تیاری کررہی ہے۔ سی آئی اے نے کہا کہ اطلاع اتنی درست ہے کہ سوویت یونین کے کسی آدمی کا چاند پر اُترنا مہینوں، ہفتوں بلکہ دنوں کی بات نظر آرہی ہے۔ سوویت یونین چاند پر انسان کو اُتار دیتا تو امریکا کی بھد اڑ کر رہ جاتی۔ چناں چہ سی آئی اے کی خبر نے امریکی انتظامیہ میں بھگدڑ سی مچادی۔ اس وقت رچرڈ نکسن امریکا کے صدر تھے۔ انہیں داخلی سیاسی مشکلات کا بھی سامنا تھا۔ انہیں محسوس ہوا ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ امریکا سوویت یونین سے پہلے انسان کو چاند پر بھیج دے۔ مگر اس کام کی صلاحیت امریکا کے پاس نہیں تھی۔ چناں چہ اعلیٰ اہلکاروں کے ایک اجلاس میں یہ تجویز سامنے آئی کہ چاند پر انسان کے اُترنے کے ڈرامے کو کسی اسٹوڈیو میں کیوں نہ فلما لیا جائے؟ لیکن سوال اُٹھا کہ یہ کام کون کرے گا؟۔ اس سوال کا جواب یہ آیا کہ یہ ذمے داری ہالی ووڈ کے معروف ڈائریکٹر اسٹینلے کیوبرگ کے سپرد کی جائے۔ چناں چہ اسٹینلے کیوبرگ سے رابطہ کیا گیا۔ اس نے پہلے تو منصوبے میں شریک ہونے سے صاف انکار کردیا مگر پھر اس شرط پر ہامی بھرلی کہ منصوبہ مکمل ہوتے ہی سی آئی اے اور امریکی انتظامیہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کی زندگی سے نکل جائے گی۔ منصوبہ سازوں نے کیوبرگ کو یقین دلایا کہ ایسا ہی ہوگا۔
چناں چہ منصوبے پر تیزی کے ساتھ کام شروع ہوا۔ ایک فلمی اسٹوڈیو میں شوٹنگ شروع ہوئی اور بالآخر ایک فلم کی صورت میں دو امریکی خلا بازوں کے چاند پر اُترنے کا دھوکا تخلیق ہوگیا۔ امریکا کے سابق وزیر دفاع ڈونلڈ رمسفیلڈ کے بقول منصوبے کے راز کے افشا ہوجانے کے اندیشے نے صدر نکسن کی نیند اُڑا دی تھی اور وہ کئی ماہ تک ٹھیک طرح سے سو نہیں پائے تھے۔ بہرحال امریکا فلم کے ذریعے پوری دنیا کو دھوکا دینے اور ساری دنیا پر اپنی دھاک بٹھانے میں کامیاب رہا اور آج تک اربوں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انسان چاند پر قدم رکھ چکا ہے۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوا یہ بھی سنیے۔
چاند کا تاریک پہلو میں سابق سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے جے بی کے ایک ایجنٹ دیمتری صاحب کا انٹرویو بھی موجود ہے۔ ان کے بقول کے بی جی نے چاندکی تصاویر ملتے ہی ان کا تجزیہ شروع کردیا اور وہ صرف دو گھنٹے میں اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ امریکی جھوٹ بول رہے ہیں۔ کے جی بی کے پاس اس حوالے سے تین دلائل موجود تھے۔ ایک یہ کہ امریکا نے چاند کی سطح پر اپنا پرچم گاڑا ہے وہ لہرا رہا تھا، حالاں کہ چاند پر ہوا ہی موجود نہیں ہے۔ کے جی بی کی دوسری دلیل یہ تھی کہ چاند سے لی جانے والی تصاویر کے پس منظر میں آسمان پر ایک تارا بھی نظر نہیں آرہا۔ کے بی جی کی تیسری دلیل یہ تھی کہ چاند کی سطح پر نیل آرم اسٹرانگ کے پاؤں کا جتنا گہرا نشان دکھایا گیا ہے اس کی کوئی سائنسی توجیہہ نہیں کی جاسکتی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ناسا نے چاند کی سطح کی جو تصاویر جاری کیں ان میں سے ایک کا Closeup دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ وہاں زمین پر اسٹینلے کیوبرگ کی ایک تصویر پڑی ہوئی تھی۔ ایسا اس لیے تھا کہ چاند پر اُترنے کے مناظر چاند کی سطح پر نہیں اسٹوڈیو میں فلمائے گئے تھے۔
چاند کا تاریک پہلو نامی دستاویزی فلم کے دعوے کے مطابق منصوبے میں شریک چار لوگوں کے بارے میں سی آئی اے کو شک ہوا کہ وہ اپنا منہ کھولنے والے ہیں، یعنی غداری پر آمادہ ہیں۔ چناں چہ سی آئی اے نے چاروں افراد کو مار ڈالا۔ پہلے شخص کو کار میں زندہ جلادیا گیا، دوسرے کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔ تیسرا شخص ڈوب کر مر گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان تینوں ہلاکتوں کو ’’حادثہ‘‘ قرار دے دیا گیا۔ چاند پر اُترنے کی فلم کو ڈائریکٹ کرنے والا اسٹینلے کیوبرگ زندہ رہا مگر اسے زندگی کے آخری حصے میں یہ خوف لاحق ہوگیا تھا کہ سی آئی اے اسے مار دینا چاہتی ہے۔ چناں چہ اس نے خود بھی گھر سے نکلنا بند کردیا تھا اور اپنے اہل خانہ کو بھی وہ گھر سے نہیں نکلنے دیتا تھا۔ یہاں تک کہ اسٹینلے کیوبرگ کا انتقال ہوگیا۔ انتقال کے بعد اس کی بیوی ایک دن اس کے کاغذات میں گھسی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے شوہر کی دستاویزات میں ایک فائل Top Secret کے عنوان سے موجود ہے اور اس فائل میں اصل منصوبے کے تمام شواہد موجود ہیں۔ دستاویزی فلم میں بتایا گیا ہے کہ امریکا کے صدر نکسن کو اندیشہ تھا کہ کہیں نیل آرم اسٹرانگ اور اس کے دو ساتھی اپولو گیارہ کے اس تجربے میں ہلاک نہ ہوجائیں، جس کے ذریعے یہ دھوکا تخلیق کیا جارہا تھا کہ امریکا اپنے خلا بازوں کو چاند پر بھیج رہا ہے۔ چناں چہ نکسن نے حفظِ ماتقدم کے طور پر اپنا ایک بیان ریکارڈ کرکے رکھ لیا تھا۔ اس بیان میں نکسن کہہ رہے ہیں کہ میں ابھی خلا بازوں کی قبروں سے لوٹ کر آیا ہوں۔ نکسن کا یہ ریکارڈ شدہ بیان بھی دستاویزی فلم میں موجود ہے۔
اس فلم کو دیکھ کر ہمیں برطانیہ کے نومسلم دانش ور مارٹن لنگز کی ایک کتاب یاد آگئی۔ کتاب کا عنوان ہے ’’Ancient beliefs And Modern Superstition‘‘ یعنی قدیم عقاید اور جدید توہمات۔ اس کتاب میں مارٹن لنگز نے جدید مغرب کے کھیل کو اُلٹ دیا ہے۔ جدید مغرب کا کھیل یہ ہے کہ وہ مذہبی عقاید کو توہمات قرار دیتا ہے اور جدید فلسفے اور سائنس بالخصوص سائنس کے نظریات کو ’’عقاید‘‘ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ حالاں کہ جدید مغربی فلسفہ تردید در تردید کی ایک طویل داستان ہے۔ یہاں تک کہ سائنس کے نظریات بھی بدلتے رہتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ مغرب میں نیوٹن کے Mechanics تین سو سال تک ’’عقیدے‘‘ کے طور پر پڑھائی جاتی رہی مگر پھر آئن اسٹائن کے نظریہ اضافت نے نیوٹن کے نظریے کو ازکار رفتہ ثابت کردیا۔ اب کوانٹم فزکس کے نظریات آئن اسٹائن کے نظریات پر سوالات اُٹھا رہے ہیں۔ مغرب کے علوم اس اعتبار سے بھی باہم دست و گریبان ہیں کہ مغرب کی معاشیات انسان کو معاشی حیوان باور کراتی ہے۔ مغرب کا علم سیاست انسان کو سیاسی حیوان یا جمہوری حیوان کے طور پر پیش کرتا ہے۔ مغرب کی نفسیات انسان کو جبلتوں کا تماشا قرار دیتی ہے اور مغڑب کی حیاتیات انسان کو حیاتی وجود کے نام سے یاد کرتی ہے۔ یہ دیکھ کر میر کا بے مثال شعر یاد آجاتا ہے۔
یہ توہّم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا
یہ تو مغرب کے علم کا حال ہے۔
مغرب کی سیاست میں موجود توہمات کا قصہ یہ ہے کہ مغرب خود کو عقل پرست اور جمہوریت پسند کہتا ہے مگر اس نے جو اقوام متحدہ تخلیق کی ہے اس کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ سلامتی کونسل کہلاتا ہے اور سلامتی کونسل میں پانچ طاقتوں کے پاس ویٹو پاور ہے۔ اس پاور کے ذریعے کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔ اقوام متحدہ کا دوسرا حصہ جنرل اسمبلی کہلاتا ہے۔ جنرل اسمبلی تقریری مقابلوں کا فورم ہے۔ اصل فیصلے جنرل اسمبلی میں ہونے چاہئیں اس لیے کہ جنرل اسمبلی میں پوری دنیا کی نمائندگی ہے اور یہاں پر جنرل اسمبلی کے تمام اراکین مساوی حیثیت کے حامل ہیں مگر اقوام متحدہ کے اصل فیصلے سلامتی کونسل میں ہوتے ہیں جنرل اسمبلی میں نہیں۔ اس صورتِ حال کو غور سے دیکھا جائے تو اقوام متحدہ کے ادارے میں نہ کہیں ’’عقل‘‘ موجود ہے نہ جمہوریت۔ یہاں ہر طرف طاقت کا راج ہے، مگر اس کے باوجود مغرب عقل پرست بھی بنا ہوا ہے اور جمہوریت پسند بھی۔ یعنی یہاں بھی چاند کا تاریک پہلو کی کہانی نئے انداز میں دہرائی جارہی ہے۔ بے شک مغرب بالخصوص امریکا سے کچھ بھی بعید نہیں۔