اعظم سواتی کا انجام

191

وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم خان سواتی نے آخر کار استعفا دے دیا۔ یہ وہی صاحب ہیں جن کے بارے میں گزشتہ بدھ کو عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے تبصرہ کیا تھا کہ ’’آپ حاکم وقت ہیں، کیا حاکم بھینسوں کی وجہ سے عورتوں کو جیل بھیجتے ہیں؟‘‘ عدالت عظمیٰ نے آئین کی شق F(1)62 کے تحت مقدمہ چلانے کا عندیہ دیا تھا۔ اس شق کے تحت اعظم سواتی ہمیشہ کے لیے نا اہل ہوجاتے جس طرح جہانگیر ترین ہوگئے ہیں۔ اعظم سواتی کی نا اہلی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ انہوں نے اپنی طاقت اور وزارت کا ناجائز استعمال کیا اور جے آئی ٹی کے مطابق جھوٹ بولا۔ اگر اعظم سواتی آغاز ہی میں وزارت چھوڑدیتے تو کچھ آبرو رہ جاتی۔ جب سابق وزیراعظم نواز شریف پر الزامات لگے تو اس وقت عمران خان نے مطالبہ کیا تھا کہ نواز شریف استعفا دے کر مقدمات کا سامنا کریں۔ وزیراعظم بن کر انہیں یہ بات یاد نہیں رہی۔ بات صرف اعظم خان سواتی کی نہیں، عمران خان کے کئی وزیر و مشیر مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ ان کے وزیر دفاع پرویز خٹک، مشیر زلفی بخاری اور چند دیگر بھی مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ امید ہے کہ عمران خان کو یہ یاد ہوگا کہ وزیراعظم بننے سے پہلے انہوں نے کیا کہا تھا۔ مگر انہوں نے تو اپنے وفاقی وزیر اعظم خان سواتی کی غلط شکایت پر آئی جی اسلام آباد کا تبادلہ کردیا تھا، یہ جانے بغیر کہ حقیقت کیا ہے۔ ان کے ترجمان فواد چودھری اور ایک بخاری مشیر اس پر اڑے ہوئے تھے کہ اعظم سواتی نے کیا کیا ہے کہ اسے ہٹایا جائے۔ اب وہ کیا کہیں گے جب سواتی نے استعفا دے دیا یا ان سے لے لیا گیا۔ اب اگر آئی جی اسلام آباد بھی بحال ہوجاتے ہیں تو کیا یہ وزیر اعظم کے لیے باعث شرمندگی نہیں ہوگا۔ ویسے تو وہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے اقربا پروری کے تبصرے پر ناراضی کا اظہار کرچکے ہیں کہ چیف جسٹس کے تبصرے پر بہت افسوس ہوا اور چیف جسٹس کا کہناتھا کہ کسی کو برا لگتا ہے تو لگے، میں 20 مرتبہ اقربا پروری پر تنقید کروں گا۔ جناب چیف جسٹس نے کہاکہ زلفی بخاری کے مقدمے میں دیکھنا ہے کہ تقرر قانون کے مطابق ہوا یا نہیں۔ اور وزیراعظم نے فرمایا کہ حکمرانوں کو قانون کے تحت لانے کا کام عدالت عظمیٰ نے کیا، عدالت نے نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی۔ تو کیا حکمران اب قانون کے تحت آجائیں گے؟ فواد چودھری کسی شرمندگی کے بغیر کہہ رہے ہیں کہ عمران خان نے احتساب کی مثال قائم کردی۔