افغانستان میں پاکستان کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا

204

امریکا نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کے بغیر افغانستان میں کامیابی ممکن نہیں۔ لیکن اس اعتراف کے ساتھ ساتھ یہ ہدایت نامہ بھی آیا ہے کہ پاکستان افغان امن عمل کی حمایت اور ہمارے نمائندہ خصوصی سے تعاون کرے۔ اور وہی پرانی ڈفلی پرانا راگ الاپا ہے کہ پاکستان طالبان کو اپنی سرزمین پر ٹھکانے بنانے سے روک سکتا ہے۔ اندر کا حال یہ ہے کہ امریکی جنرل میکنزی اپنے حکمرانوں کو پیغام بھیج رہا ہے کہ افغانستان میں پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔ اچانک انخلا یا حکمت عملی میں تبدیلی نقصان دہ ہوگی۔ ان خبروں کے ساتھ ساتھ امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان میں اٹھارہ این جی اوز کو کام سے روکنے پر افسوس ظاہر کیا ہے۔ امریکیوں کو یہ بات تو 1980ء کے عشرے میں روس کے حشر سے اچھی طرح پتا چل گئی تھی کہ افغانستان میں کامیابی پاکستان کے بغیر ممکن نہیں اور جب افغانستان میں مطلوبہ کامیابی مل گئی تو پاکستان کودودھ کی مکھی کی طرح نکال پھینکنے کی کوشش کی گئی یہاں تک کہ خود افغانستان پر حملہ کردیا اور پھر یاد آیا کہ افغانستان میں پاکستان کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔ غنڈہ گردی کے انداز میں جنرل پرویز مشرف سے پوچھا گیا کہ ہمارے دوست ہو یا دشمن، جو ہم کہہ رہے ہیں وہ کرو گے۔ جنرل پرویز ڈر گئے اور ساری شرائط راتوں رات مان لیں۔ شاید جنرل پرویز کو یقین نہیں تھا کہ پاکستان کے بغیر افغانستان میں کامیابی ممکن نہیں ۔ چلیں یہ بہرحال بہتر ہوا کہ امریکا نے اعتراف کرلیا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے بغیر کامیابی ممکن نہیں ۔ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کے تناظر میں یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے کہ افغانستان میں جنگ یا امن دونوں میں کامیابی پاکستان کے بغیر ممکن نہیں ۔ اور یہ بات بار بار ثابت ہو چکی ہے۔ لیکن امریکیوں کی ٹیڑھ انہیں سیدھی بات کہنے پر بھی اپنی ٹانگ اوپر رکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ چنانچہ یہ کہا گیا ہے کہ ہمارے نمائندہ خصوصی سے تعاون کیا جائے۔ امریکی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اب حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں اب ان کے نمائندہ خصوصی کو پاکستان سے تعاون کرنا چاہیے پاکستان تو تعاون کر کے تھک چکا ہے۔ پاکستان کو ہزاروں فوجیوں اور شہریوں کی جانوں کا نقصان ہوا ہے مالی نقصان الگ ہوا ہے۔ امریکا پاکستان سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کرتا اور پھر کہا جاتا ہے کہ امن پاکستان کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ جو طالبان کے ٹھکانوں کی بات کی گئی ہے، امریکا نے کب پاکستان کی اجازت کا تکلف کیا ہے؟ ہمیشہ خود آپریشن کیے ہیں۔ جو ٹھکانہ ہے اس کو ختم کردیں۔ لیکن باجوڑ کے مدرسے والی کہانی دہرانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اور اب امریکی ڈرون اجازت کے بغیر پاکستانی حدود میں داخل ہونے پر انہیں مار گرانے کی پارلیمنٹ کی اجازت بھی حکومت اور فوج کے پاس ہے۔ لہٰذا اس راستے کو اختیار کرنے سے قبل امریکا سو بار سوچ لے۔ اب بات رہ جاتی ہے امریکی جنرل میکنزی کی۔ عام طور پر امریکا و بھارت جیسے مہم جو ممالک اپنے جرنیلوں کی باتوں کو اہمیت نہیں دیتے حالاں کہ یہ لوگ حقائق کو اپنے حکمرانوں اور پالیسی سازوں کے مقابلے میں زیادہ قریب سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جنرل میکنزی نے سینیٹ میں بیان دیا ہے کہ جنگ میں پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔ بڑی تعداد میں افغان فوجیوں کی اموات ناقابل برداشت ہیں۔ یہ افغان فوجیوں کی ہمدردی نہیں ہے۔ بلکہ بڑی تعداد میں امریکی فوجی مروا کر اب افغان فوجیوں کو آگے کیا گیا ہے۔ انہیں خوف ہے کہ حکمت عملی میں تبدیلی کر کے امریکی فوج کو دوبارہ آگے نہ کردیا جائے۔ افغانستان کی تاریخ یہی ہے کہ یہاں غیر ملکی فوج کے نصیب میں مرنا ہی لکھا ہے خواہ کتنی بڑی فوجی طاقت کیوں نہ ہو۔ اسی لیے افغان فوج کو آگے کیا ہے۔ اچانک انخلا والی بات بہرحال بے معنی ہے۔ چار پانچ سال سے امریکی یہ کہہ رہے ہیں کہ اب نکلے کہ تب نکلے پوری دنیا ذہنی طور پر تیار ہے کہ امریکی افغانستان سے نکلنے والے ہیں ۔ وہ نکلنا بھی چاہتے ہیں لیکن وہی مسئلہ درپیش ہے جو 89ء میں سوویت یونین کے نکلتے وقت تھا کہ پھر معاملات کون سنبھالے گا۔ امریکا نے بہت کوشش کر کے بھارت کو تیار کیا تھا لیکن اس غبارے میں جتنی ہوا بھرو کسی نہ کسی طور نکل ہی جاتی ہے اسی لیے امریکا کو مجبوراً اعتراف کرنا پڑا کہ پاکستان کے بغیر کامیابی ممکن نہیں ۔ امریکی زبانی اعتراف کریں یا اپنے اجلاسوں میں ۔ لیکن یہ زمینی حقیقت افغانستان، بھارت، امریکا یہاں تک کہ چین اور روس کے سامنے بھی پہاڑ کی طرح اٹل ہے کہ افغانستان میں جو کچھ ہوگا پاکستانی مرضی سے ہوگا پاکستان کو نظر انداز کرنے کا نقصان ایسا کرنے والوں ہی کو ہوگا اور امریکیوں کے پیٹ میں 18غیر ملکی این جی اوز کا جو مروڑ ہو رہا ہے۔ وہ کیوں؟ پاکستان نے تو ان این جی اوز کو پاکستان دشمن سرگرمیوں کی وجہ سے نکالاہے۔ تو امریکا کو پاکستان میں پاکستان دشمن این جی اوز سے ہمدردی کیوں ہے۔ یہ کھیل بھی پرانا ہوگیا این جی اوز کا پرانا نام ایسٹ انڈیا کمپنی ہوتاتھا۔