آج سے ہم چھ ماہ کے لیے ایک کالم لکھ رہے ہیں۔ جب بھی ترقی دیکھنی ہو یہ پڑھ لیں ہر چیز ترقی پر ہے۔ ملک ترقی کی راہ پر ہے، ڈالر ترقی پر ہے، پٹرول ترقی پر ہے، پہلے اسٹاک میں 100 ارب ڈوبتے تھے اب 135 ارب ڈوبے ہیں، انڈے مرغی، تیل، دودھ، غرض تمام اشیائے خورونوش ترقی پر ہیں۔ منی لانڈرنگ ترقی پر ہے، منی لانڈرنگ کے خلاف کارروائی کے حوالے سے برطانیہ نے گولڈن ویزوں کا اجرا روک دیا ہے۔ ظاہری بات ہے جس رفتار سے یہ ترقی ہورہی ہے اس کے اثرات چھ ماہ نہیں چھ سال نہیں چھ عشروں تک رہیں گے۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ کس کس ترقی کا ذکر کیا جائے لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان میں حکومت کے کاموں کی تعریف کرنا بہت مشکل ہے۔ ایک پیرا گراف بھی نہیں لکھا جارہا۔ حالاں کہ ہم نے کوئی بات جھوٹ نہیں لکھی ہے، سب سچ ہے جھوٹ لکھا ہوتا تو شاید ضمیر پر بوجھ رہتا۔ ہمارے وزیر اعظم نے کہا تھا اقتدار سنبھالتے ہی بیرون ملک بھیجے گئے تین سو ارب ڈالر واپس لے آؤں گا، تین روپے بھی نہیں آئے، ہاں تین مشیر ضرور آئے بیرون ملک سے۔ یہ بھی تو ترقی ہے باہر سے لوگ پاکستان آکر خدمت کررہے ہیں، ملکی ترقی کا یہ حال ہے کہ پہلے ایک آدھ سڑک کاغذات میں ہوتی تھی اور زمین پر تین لیکن اس اب خبر آئی ہے کہ صرف جیکب آباد میں کاغذی اسکیموں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ 648 اسکیموں کی تحقیقات ہورہی ہے اور 23 اسکول ایسے ہیں جن کے بارے میں پتا چلا ہے کہ وہ صرف کاغذوں میں ہیں عمارت کہیں نہیں۔ یہ بھی ترقی ہے، پہلے ایک دو ایسے اسکول تھے، مزید ترقی دیکھیں پاکستان کے ایٹمی سائنسدان قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو جنرل پرویز نے اپنی جان بچانے کے لیے رسوا کیا، بھارت نے اپنے ایٹمی سائنسدان کو صدر بنایا، ہمارے جرنیل نے انہیں مجرم بنایا۔ اب نیب کا ادارہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے خلاف تحقیقات کرے گا۔ ہے ناں ترقی۔۔۔ ڈاکٹر صاحب نے کبھی کہہ دیا تھا کہ پاکستان کو مفت بجلی ملے گی، اب اگر بجلی مفت نہیں ملی تو لٹکادو ڈاکٹر ثمر کو۔ یہی قربانیوں اور محنت کا ثمر ہے۔ ہمارے وزیراعظم نے بھی تو کہا تھا جنوبی پنجاب صوبہ بنے گا، اب کہتے ہیں مشکل ہے۔۔۔ خیر تنقید کو منع کیا گیا ہے، ورنہ کراچی کا ایس تھری منصوبہ 2025 تک مکمل نہ ہونے کی خبر بھی ایک ترقیاتی خبر ہے۔
ہمارے ایک دوست ضرار خان کا انداز اس حوالے سے اچھا تھا، کم از کم پکڑ میں نہیں آتے تھے۔ ایک ساتھی کی شادی میں گئے اور زور سے کہا کہ پو۔۔۔ شادی مبارک۔۔۔ لوگوں نے پوچھا یہ پو کیا ہے۔۔۔ ضرار صاحب نے کہا کہ۔۔۔ بھائی انہوں نے منع کیا ہے پپو کہنے سے۔۔۔ میں تو پپو کہتا تھا، ان کے منع کرنے کے بعد صرف پو کہتا ہوں۔ ایک اور ساتھی کو ان کے قد کی وجہ سے یکساں نام والے صاحب کا نام لے کر چھوٹا والا پکارنے لگے لیکن اس پر بھی منع کیا گیا تو اسے وہ والا۔۔۔ کہنے لگے۔۔۔ لہٰذا اب ہم بھی یہیں کہیں گے ترقی والا پاکستان۔۔۔ ہر خبر کے آخر میں لکھنے کی ہدایت کردی گئی ہے کہ ملک میں تیز رفتار ترقی مبارک۔۔۔ بلکہ ایک صاحب نے تو کہا ہے کہ اتنی تیز رفتار ترقی نہیں ہونی چاہیے حد رفتار متعین کی جائے، ورنہ خدشہ ہے کہ چھ ماہ میں امریکا یورپ وغیرہ پیچھے رہ جائیں گے۔ اب آئیے میڈیا کو ملنے والے ہدایت نامے کی طرف۔۔۔ اس سے بڑھ کر کنٹرولڈ میڈیا کی کوئی مثال ممکن نہیں۔ کسی زمانے میں اخبارات کو محکمہ اطلاعات کاانر سیکرٹری یا وزیر اطلاعات کی دھمکی پہنچاتا تھا، پھر یہ کام خود سیکرٹریوں نے سنبھال لیا۔ مزید ترقی ہوئی تو وزرائے اطلاعات خود کود پڑے۔ ترقی کی رفتار تیز ہے لہٰذا اب پاک فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ میڈیا 6 ماہ تک صرف ترقی دکھائے۔ ارے کیا مشکل کردی۔ ترقی کہاں سے دکھائے۔۔۔ اس کے لیے ایک پرانی ہدایت یا مشورہ ہے جو ڈاکٹرمریضوں کو دیا کرتے تھے کہ اخبارات نہ پڑھیں، جب ٹی وی آگیا تو یہی کہا گیا کہ صرف کارٹون دیکھا کریں، اب جب کہ ٹی وی چینلز کی بہار۔۔۔ بہار شاید غلط لفظ ہے اس سے اچھا تاثر مل رہا ہے یہاں چینلز کا سونامی آچکا ہے تو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ صرف پی ٹی وی دیکھیں۔ چلو پھر ہم بھی پی ٹی وی بن کے دیکھتے ہیں۔ بہرحال چھ ماہ کی بات ہے 100 دن بھی تو گزر گئے، 180 اور گزار لیں۔ ارے جو لوگ حکومت میں ہیں وہ 6 ماہ کیا 6 سال گزرنے کے بعد بھی اچھی خبر نہیں لاسکتے۔ یہ لوگ پی پی کی حکومت میں تھے، یہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں تھے، اب پی ٹی آئی میں ہیں اور وہ بھی حکومت میں ہیں جو جنرل پرویز کے ہمرکاب تھے۔ بہرحال اب پاک فوج کے افسر تعلقات عامہ کا حکم ہے کہ ترقی دکھاؤ۔ جنرل آصف غفور نے بتایا کہ ترقیاتی اور اچھے کام بھی ہوئے ہیں، یہ وضاحت نہیں کی کہ کیا یہ ترقیاتی کام گزشتہ 4 ماہ میں ہوئے ہیں یا پہلے سے ہوتے آرہے ہیں۔ اگر یہ کام تحریک انصاف کی 4 ماہ کی حکومت میں ہوئے ہیں تو نظر کیوں نہیں آرہے۔ یہ بتانا تو عمران خان اور ان کی ٹیم کے لیے بھی دشوار ہورہا ہے کہ ترقیاتی کام کون کون سے ہوگئے ہیں۔ بہرحال، فوج کے ترجمان ایسا کہہ رہے ہیں تو صحیح ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ آج پرانی فوج نہیں، ایک ایک اینٹ لگا کر پاکستان دوبارہ بنارہے ہیں، تعمیر تو بہت مستحسن ہے لیکن کسی بھی تعمیر سے پہلے تخریب ضروری ہوتی ہے۔ عمران خان بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ نیا پاکستان بنارہے ہیں، پرانا ملبہ کس پر گرے گا؟ اس عرصے میں پارلیمان میں کوئی قانون سازی نہیں ہوسکی۔ بہرحال، فوج کے ترجمان کے حکم پر تمام ذرائع ابلاغ کو چھ ماہ تک ترقی دکھانی ہے، پھر بقول شخصے سچ بول اور لکھ سکتے ہیں۔ ہاں اینٹ اینٹ جمع کرنے کی بات بھی ٹھیک لگتی ہے۔ جب پی ٹی آئی کی حکومت بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا جمع کیا گیا تھا اب یہ کنبہ بھی رنگ دکھارہا ہے۔