عمران خان کا دو ٹوک موقف 

381

وزیر اعظم عمران خان بڑی جرأت کے ساتھ امریکا کو دو ٹوک جواب دے رہے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو انہوں نے ایک امریکی اخبار کو انٹرویو اور بلوچستان کے طلبہ سے خطاب میں ایک بار پھردہرایا ہے کہ ڈومور کا مطالبہ کرنے والے اب ہم سے مدد مانگ رہے ہیں کہ افغانستان میں طالبان سے مذاکرات میں تعاون کریں ۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اب ہم کسی دوسرے کی جنگ نہیں لڑیں گے، امریکا سے اس طرح کے تعلقات نہیں چاہتے جس میں پاکستان کی معیشت کرائے کے سپاہی یا بندوق کی ہو۔ اس کیساتھ ہی عمران خان نے یہ بھی کہا کہ واشنگٹن کے ساتھ چین جیسے تعلقات چاہتے ہیں اور سپر پاور کے ساتھ دوستی کو ن نہیں چاہے گا۔ وزیر اعظم پاکستان نے بڑی وضاحت کے ساتھ افغانستان اور امریکی تعلقات کے بارے میں پاکستان کی پالیسیاں بیان کردیں۔ اس میں امریکا کی بے وفائی کا شکوہ بھی تھا کہ سوویت یونین کی افغانستان سے پسپائی کے بعد پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا گیا جس کے نتیجے میں نہ صرف لاکھوں افغان مہاجرین کا بوجھ پاکستان پر پڑا بلکہ اسلحہ اور منشیات کی بھی بھرمار ہوگئی۔ بغیر کسی تیاری کے سوویت یونین سے انخلا کا سمجھوتا کرنے پر صدر جنرل ضیاء الحق نے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو فارغ کردیا تھا۔ جنرل ضیاء مرحوم کا ارادہ تھا کہ پہلے افغانستان میں موجود مقامی قوتوں سے حکومت سازی کے نقشے پر بات کی جائے۔ سوویت یونین کے انخلا کے بعد افغانستان میں غلبے اور اقتدار کے لیے آپس میں لڑائی شروع ہوگئی اور پھر طالبان ملاعمر کی قیادت میں ایک مضبوط طاقت بن کر سامنے آئے اور افغانستان کے بڑے حصے پر اپنی حکومت قائم کرلی۔ پاکستان میں 1988ء کے بعد قائم ہونے والی بے نظیر کی حکومت نے طالبان کو تقویت پہنچائی اور عسکری تربیت کا اہتمام کیا۔ بے نظیر بھٹو نے ٹی وی کے ایک پروگرام میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ’’ طالبان کی ماں‘‘ ہیں۔ پاکستان سمیت چند ممالک نے افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرلیا اور پھر یہ ہوا کہ اسلام آباد میں متعین افغان سفیر ملا ضعیف کو امریکا کے حوالے کر کے تمام سفارتی آداب کو پامال کردیا گیا۔ بہرحال ، یہ ایک طویل داستان ہے جس کے دوسرے حصے کا آغاز 2001ء میں نیویارک کے توام میناروں پر طیاروں کے حملے سے ہوا جو آج بھی اسرار کے پردے میں چھپا ہوا ہے کہ اس حملے کی سازش کس نے تیار کی۔ امریکا نے اس کو جواز بنا کر افغانستان پر چڑھائی کردی اور 40ممالک کی صلیبی فوج لے کر افغانستان کی فضاؤں پر قبضہ کرلیا، زمینی قبضہ تو آج تک ممکن نہیں ہوسکا۔ خود عمران خان نے اپنے مذکورہ انٹرویو میں کہا ہے کہ افغانستان کا 40فیصد علاقہ افغان حکومت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ گو کہ یہ علاقہ 60فیصد سے بھی زیادہ ہے جہاں افغان حکومت کی عملداری ہے نہ امریکا کی۔ پاکستان گزشتہ 17برس سے امریکا کے کرائے کے سپاہی کا کردار کرتا رہا ہے۔ اس کے ہزاروں جوان شہید ہوئے اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ لیکن امریکا پھر بھی پاکستان پر الزامات عاید کرتا رہا ہے اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ فرماتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کو جتنے پیسے دیے اس نے اتنا کام نہیں کیا۔ کرائے کے سپاہی سے تو اسی لہجے میں گفتگو کی جاتی ہے۔ پاکستان نے تو اپنی سرزمین بھی امریکا کے حوالے کردی تھی کہ کنٹینرز یہاں سے گزار کر افغانستان لے جائے اور ان کنٹینرز میں افغان مسلمان بھائیوں کی موت کا سامان جاتاتھا یا امریکی فوجیوں کے لیے عیاشی کا بندوبست۔ عمران خان کو شاید یاد ہو کہ انہوں نے برسوں پہلے جوش میںآ کر اعلان کیاتھا کہ ناٹو کے نام پر گزرنے والے ان کنٹینروں کو روکنے کے لیے دھرنا دیں گے مگر کسی کے اشارے پر انہوں نے یوٹرن لے لیا۔ گزشتہ 17برس میں امریکا پاکستان میں اپنے ’’ ٹھیکے داروں‘‘ کے ذریعے کیسی تباہی پھیلاتا رہا اس کی تفصیل امریکی جریدے دی نیشن نے جاری کردی تھی جس کے مطابق امریکا کے یہ کرائے کے لڑاکے ’’ وار کنٹریکٹرز‘‘ امریکی فوجی سازوسامان پاکستان کے حساس علاقوں کے ذریعے افغانستان پہنچاتے رہے۔ مذکورہ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ اس صورت حال کو پاکستان کے ذرائع ابلاغ نے مکمل طور پر نظر انداز کیا۔ 2010ء میں امریکا نے سرکاری طور پر یہ رپورٹ جاری کی تھی اور اس وقت پاکستان میں پرویز مشرف کی حکومت ختم ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت چل رہی تھی اور اسی سن میں نواز شریف کی پہلی حکومت قائم ہوئی۔ پاکستان کو کرائے پر دینے کا فیصلہ جنرل پرویز مشرف کر گئے تھے جس سے بعد میں انحراف بھی نہیں کیا گیا۔ عمران کی جرأت اظہار ماضی کے حکمرانوں کے مقابلے میں یقیناًقابل تعریف ہے جو ٹیلی فون پر ایک دھمکی پر پورا ملک اور اس کے وسائل امریکا کے حوالے کرچکے ہیں اور اس کمانڈو جنرل کے ترجمان شیخ رشید قوم کو امریکا سے ڈرانے میں پیش پیش تھے لیکن عمران خان یہ ضرور ملحوظ رکھیں کہ ان کا سامنا ایک مکار اور چالاک امریکی صدر سے ہے جو اکھاڑے بھی چلاتا رہا ہے اور جوش میں آکر خود بھی ٹوٹ پڑتا ہے۔ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان سے مدد طلب کرنا ایک اور چال ہوسکتی ہے۔ عمران خان نے صحیح کہا ہے کہ افغان طالبان پر دباؤ کا کہنا آسان کرنا مشکل ہے۔ یہ وہ مجاہدین ہیں جو پہلے سوویت یونین کو ناکوں چنے چبوا چکے ہیں اور اسے فرار ہونے پر مجبور کیا اور اب 17برس سے قوت فوقیہ سمجھی جانے والی طاقت امریکااور اس کے حواریوں سے نبرد آزما ہیں۔ انہیں موت کا خوف ہے نہ مال و دولت چھن جانے کا اندیشہ۔ ان پر دباؤ امریکابھی نہیں ڈال سکا تاہم افغانستان میں امن کے لیے پاکستان جس قدر تعاون کرسکتا ہے ضرور کرے تاکہ امریکاافغانستان سے نکل سکے۔ اس کی خواہش بھی یہی ہے لیکن اب بھی وہ کسی کامیابی کی توقع رکھتا ہے۔ امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈلفورڈ نے کہا ہے کہ افغانستان میں جنگ میں مکمل کامیابی کے بغیر وہاں سے انخلا ایک اور نائن الیون کا موجب ہوگا۔ یعنی 17سال کی ناکامیوں کی طویل داستان کے باوجود امریکی جنرل کو کامیابی اور وہ بھی مکمل کامیابی کی آس ہے۔ یعنی اب بھی امریکا افغانستان سے نکلنے پر تیار نہیں۔ وہ اس بے مقصد جنگ پر کھربوں ڈالر اور اپنے ہزاروں فوجی قربان کرچکا ہے لیکن کمبل چھوڑنے پر تیار نہیں۔ افغان مجاہدین تو مزید 17برس تک اسی طرح لڑتے رہیں گے۔ لیکن پاکستان کی عسکری قیادت بھی اس کے لیے تیار نہیں کہ امریکا افغانستان سے نکلے۔ خود عمران خان نے فرمایا ہے کہ امریکا افغانستان سے جلد بازی میں نہ نکلے۔وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ امریکا چند برس اور افغانستان پر قابض رہے۔ کیا 17برس بعد اس کا نکلنا اب بھی جلد بازی کہلائے گا؟ کیا اس معاملے میں بھی عسکری قیادت اور عمران حکومت ایک پیچ پر ہیں۔ ایک اور امریکی جنرل کین میکنزی نے فرمایا ہے کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے مکمل اثر رسوخ استعمال نہیں کررہا اور طالبان کو بھارت کے خلاف استعمال کیاجارہا ہے۔ پاکستان کیا کررہا ہے اس سے قطع نظر خود امریکا 17برس سے کیا کررہاہے۔ مذاکرات دو برابر کی قوتوں کے درمیان ہوتے ہیں۔ امریکا مذاکرات کی بھیک مانگ کر طالبان کو اپنے برابر کی قوت تسلیم کررہا ہے۔ اور اب یہ نیا شوشہ چھوڑا ہے کہ طالبان کو بھارت کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ امریکا نے افغانستان میں بھارت کو داخل ہی کیوں کیا ہے اور کیا کئی عشروں سے بڑی طاقتوں سے نبرد آزما طالبان کو کوئی کسی کے خلاف استعمال کرسکتا ہے ؟