طبی سہولتوں کی فراہمی میں ریاست کی ناکامی

148

عدالت عظمیٰ کے سربراہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاہے کہ ریاست طبی سہولتیں دینے میں ناکام ہوگئی ہے۔ اسپتالوں کی صورتحال خراب ہے۔ بنیادی آلات موجود نہیں۔ اس ملک میں صرف مالدار آدمی ہی علاج کراسکتا ہے۔ انھوں نے ہدایت کی کہ سفارشی کلچر ختم کیا جائے۔ میرٹ پر کام کریں۔ پنجاب کے اسپتال تباہ، کے پی کے میں ایک ایک بیڈ پر تین تین مریض دیکھے ہیں۔ چیف جسٹس کا بیان محض ان کے ایک دورے کے نتیجے میں سامنے نہیں آیا ہے بلکہ وہ پہلے بھی طبی سہولیات کی کمی کا ذکر کرچکے ہیں۔ اب انھوں نے پنجاب اور کے پی کے کا حوالہ دیا ہے وہ سندھ کی حالت کا بھی ذکر کرچکے ہیں۔ ایک فلاحی ریاست کا کام بھی یہی ہے کہ اپنے شہریوں کو امن وامان، تعلیم، روزگار، صحت اور دیگر سہولتیں دے لیکن یہاں ان میں سے کوئی چیز ریاست نہیں دے رہی ہے۔ یہ کہاجاسکتا ہے کہ پنجاب میں خرابی ن لیگ کی وجہ سے ہے لیکن کے پی کے میں تو پی ٹی آئی کا تسلسل ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کا تسلسل ہے سرکار اس جانب توجہ نہیں دے رہی ہے یا اس میں بھی گھپلے ہیں۔ ابھی تو چیف جسٹس نے صرف نوٹس لیا ہے کیس سننے بیٹھے تو وہ ہوگا جس کا ذکر انھوں نے کیا ہے کہ میڈیکل کالجز کے کیس میں پتا چلاکہ پڑھانے والا کوئی نہیں۔ ان کا سوال تھا کہ کوئی ڈاکٹر صوبائی سیکریٹری صحت کیوں نہیں ہوسکتا۔ چیف جسٹس نے جن خرابیوں کی نشاندہی کی ہے وہ پاکستان میں بہت پرانی ہیں اب جب کہ انہوں نے بات کردی ہے تو لگے ہاتھوں از خود نوٹس لے کر اس کے اسباب کو بھی سامنے لائیں اور سدباب بھی کروائیں۔ دنیا بھر میں ریاست کی مدد پرائیویٹ سیکٹر کرتا ہے نجی شعبہ جب پرسکون انداز میں کام کرتا ہے اور اس کا کاروبار وسعت پاتا ہے تو ملک میں روزگار کے مواقع از خود بڑھتے ہیں لیکن صحت کے شعبے کے حوالے سے ایک اہم بات ہے جس کی جانب حکومتیں کوئی توجہ نہیں دے رہیں یہ اتفاق ہے کہ جس روز چیف جسٹس اسپتالوں میں صحت کی سہولیات کی فقدان اور ریاست کی نااہلی کا ذکر کررہے تھے اسی روز پاکستانی دواساز کمپنیوں کی تنظیم پاکستان فارما سوٹیکل مینو فیکچررز ایسوسی ایشن کے صدر زاہد سعید نے پریس کانفرنس کرکے اسباب سامنے لانے کا کام بھی کردیا۔ انہوں نے توجہ لائی کہ بجلی پر 45 فی صد اضافہ ہوچکا جب کہ گیس پر 65 فی صد اور ڈیزل کی قیمت میں 75 فی صد اضافہ ہوا ہے اور جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت خام مال کی خریداری میں ہوتی ہے وہ ڈالر ہے جو جنوری میں 104 کا تھا اور آج 140 کا ہے۔ حکومت نے اس مسئلے کے حل کے لیے کیا اقدامات کیے۔ ذرا چیف جسٹس صاحب اس کا بھی جائزہ لے لیں۔ ابھی تو پاکستانی دوا ساز اداروں کی تنظیم نے 40 فی صد اضافے کے خدشات کا اظہار کیا ہے لیکن خسارے میں کب تک کام کیا جائے گا اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ پھر دوسرا راستہ چوری کا ہے یا تو مال کا معیار خراب ہوگا جو براہ راست پاکستانیوں کی صحت کو متاثر کرے گا یا پھر در آمدی مال کی در آمد کے بارے میں غلط معلومات حکومت کو دی جائیں گی اور ٹیکس میں گھپلے ہوں گے۔ دونوں صورتیں ریاست اور شہریوں کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہیں۔پھر ریاست کیا کرے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر شعبے میں منہ پھاڑے ریاست کے سامنے کھڑا ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں مقامی صنعتوں کو فروغ دیتی ہیں ان کو گیس، بجلی اور ڈیزل سستے داموں اور بعض ممالک میں مفت فراہم کیا جاتا ہے جواباً ان سے سماجی شعبے میں خدمات لی جاتی ہے جن میں اسکول، اسپتال اور دیگر شعبے شامل ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستانی دوا ساز صنعت یہ ساری خدمات پہلے ہی دے رہی ہے لیکن اسے سہولتیں بالکل نہیں دی جارہیں اب حالت یہ ہے کہ فارما انڈسٹری کے نمائندوں نے انتباہ دیا ہے کہ اگر دواؤں کی قیمتوں میں چالیس فی صد اضافہ نہیں کیا گیا تو صنعتیں بند ہونا شروع ہوجائیں گی۔ اگر حکومت قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے تو یہ صحت کی سہولتوں سے محروم عوام پر ایک اور ظلم ہوگا۔ اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ حکومت فوری طور پر مقامی دوا ساز صنعت کو بجلی، گیس اور ڈیزل کی مد میں رعایتیں دے اس کے علاوہ خام مال کی در آمد پر ٹیکسوں میں چھوٹ دے تاکہ پیداواری لاگت میں کمی آئے اور اگر ممکن ہوسکے تو کچھ عرصے کے لیے سبسڈی بھی دے دی جائے تاکہ مقامی صنعت بحران سے نکلے۔ یہ صنعت بحران سے نکلے گی تو ملک میں غریبوں کو سستی دوائیں ملیں گے۔ بڑی مشکلوں سے بھارت سے اسمگل شدہ غیر معیاری ادویات کا زور توڑا گیا ہے اگر مقامی صنعت بحران کا شکار ہوگی تو بھارتی مال کی بھرمار ہوجائے گی۔ چیف جسٹس عدالت عظمیٰ کے سابق احکامات کو بھی طلب کریں جن میں حکومت کو بہت ساری ہدایات دی گئی ہیں اور کئی فیصلے کیے گئے ہیں ان میں سے کسی پر عمل در آمد نہیں ہوا۔14 نومبر کو عدالت عظمیٰ نے حکم دیا تھا کہ 15 روز میں نئی قیمتوں کا تعین کیا جائے لیکن کوئی اقدام نہیں ہوا۔ اب حکومت وزیر صحت سیکریٹری صحت اور ڈریپ توہین عدالت کے بھی مرتکب ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب اس مسئلے کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے فوری اقدام کریں اور جلد بازی میں بھی کوئی حکم جاری نہ کریں دیکھا گیا ہے کہ چیف جسٹس صاحب فوری طور پر حکم جاری کرتے ہیں اور حکومت کے اہلکار اس کی تنفیذ اپنی مرضی سے کرتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح اسلام آباد اور کراچی میں تجاوزات کے حوالے سے انہوں نے حکم کچھ دیا اور عمل در آمد کچھ اور ہوا۔ نوٹس لینے یا ان تک اطلاع پہنچنے تک تباہی ہوچکی تھی۔ دواؤں کی صنعت کا مسئلہ سنگین ہے دوا ساز کمپنیاں بھی صرف قیمتیں بڑھانے پر زور نہ دیں حکومت سے سبسڈی اور رعایتیں حاصل کریں۔ قیمتوں میں اضافے کا بوجھ تو بہر حال عوام پر ہی پڑتا ہے۔