جھگڑا ہمیشہ مال کے بٹوارے پر ہوا

202

جناب سعود ساحر صحافت کی تاریخ ہیں‘ سیاسی تاریخ سے بھی انہیں واقفیت ہے‘ صحافتی دنیا میں یونین لیڈر بھی رہے‘ اب بھی ہیں‘ مگر یونین کے بارے میں ان کے جو بھی خیالات ہیں ان سے آگاہی تو ہے مگر وہ خود ہی بتائیں تو بہتر ہوگا۔ پاکستان جب قائم ہوا تو یقیناًبہت ہی کسمپرسی کی صورت حال تھی‘ تین ٹیکسٹائل ملیں پاکستان کے حصے میں آئیں‘ سرکاری محکموں میں ریلوے ایک بڑا محکمہ تھا‘ پی آئی اے بھی اورینٹ ائرلائن کی پسلی سے نکلا اور ساٹھ کی دہائی پاکستان کا فلیگ کیریئر میں بنا‘ جوں جوں ملک ترقی کرتا رہا‘ ادارے بھی بنتے رہے اور ان میں مزدور یونینز بھی تشکیل پاتی رہیں‘ مزدور یونین بنیادی طور پر ایک ایسی انجمن کے طور پر سامنے آئیں جو مزدوروں کے مفادات کا تحفظ کرسکیں‘ کچھ عرصہ تک ان کا کردار بہت مثالی بھی رہا‘ صحافتی دنیا میں بھی ویج بورڈ ایوارڈ کے ذریعے کارکنوں کی ملازمتوں کے تحفظ کی ضمانت دی گئی لیکن عملاً ایسا کبھی نہیں ہوا۔ جس طرح سیاسی جماعتیں عوام سے ووٹ لے کر حکومت میں آجانے کے بعد عوام کو بھول جاتی ہیں بالکل اسی طرح یونینیں بھی ووٹ کی قوت سے مینڈیٹ لے کر اپنے اصل کام بھولتی رہی ہیں‘ فراموش کرتی رہی ہیں۔ یونینیں کے خلاف مقدمہ لکھنے کی کوشش نہیں بلکہ یونینیں کی ذمے داریوں کا مقدمہ ضرور لکھا جانا چاہیے اور کارکنوں کی عدالت کے کٹہرے میں یونینوں کو لازمی لاکھڑا کرنا چاہیے‘ پھر ان سے پوچھا جائے کہ مشرق‘ امروز اور لیل و نہار جیسے قوس وقزاح کیسے بند ہوئے؟ احمد ندیم قاسمی جیسے لوگ کس طرح واجد شمس الحسن کے فیصلوں کی نذر ہوئے‘ پی پی ایل کو کس نے‘ کب‘ کیسے اور کس قیمت پر استعمال کیا؟ ہر صبح اپنے قارئین کی دہلیز پر کرکے ان کے ڈرائنگ روموں میں رنگ بکھیرنے والے یہ ادارے کس طرح تباہ ہوئے‘ ان فیصلوں کے سامنے یونینیں کیوں بند نہیں باندھ سکیں۔ ایک تنظیم کی کوکھ سے دوسری تنظیم نے کیسے جنم لیا‘ اس سوال کا جواب صرف یہی ہے کہ جھگڑا ہمیشہ مال کے بٹوارے پر ہوا اور بس کچھ نہیں‘ یہی حال سیاسی جماعتوں کا ہے۔
انجمن سازی کا حق آئین نے ملک کے ہر شہری کو دیا ہے‘ آئین کے آرٹیکل سترہ میں اس کی وضاحت موجود ہے‘ آئین کی اسی ضمانت کے باعث ملک میں سیاسی جماعتیں بھی تشکیل پائیں اور ہر سرکاری‘ غیر سرکاری‘ صحافتی اداروں میں یونین بھی بنائی گئیں کام تو ان کا یہی تھا کہ منظم ہوکر بنیادی حق کے لیے جدوجہد کی جائے‘ لیکن ہوا کیا ہے؟ یہی سوال بے شمار بار سعود ساحر ہر محفل میں اپنے دوستوں سے پوچھتے رہتے ہیں کہ یونینیں موجود ہیں کارکن بے حال اور ادارے بدحال ہیں لیکن یونین کے چند بااثر افراد ہی فائدے میں دکھائی دیتے ہیں صحافت کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں کا بھی یہی حال ہے پاکستان ریلوے جس کی گاڑیوں کے ٹائم دیکھ کر لوگ اپنی گھڑیاں درست کیا کرتے تھے وہ ریلوے کہاں گئی؟ ریلوے میں ایک مغل پورہ ورکشاپ ہوا کرتی تھی کہتے تھے یہاں جہاز نہیں بنتا باقی ہر چیز بن سکتی ہے لیکن یہ عالمی شہرت یافتہ ورکشاپ کس کی نذر ہوئی‘ افسروں کا دعویٰ کچھ اور ان کے مقابلے میں یونینوں کا دعویٰ کچھ اور ہے بہر حال یہ دونوں دعوے اپنی جگہ پر‘ لیکن مغل پورہ ورکشاپ اب اپنی جگہ پر نہیں رہی۔ پی آئی اے کی اپنی ایک شان تھی‘ کس نے اسے تباہ کیا؟ اسٹیل ملز‘ ہمارے ملک کا فخر تھی‘ آج بوجھ بنی ہوئی ہے اور اس کے کارکن ہر ماہ کی تنخواہ کے لیے مظاہرے کرنے پر مجبور رہتے ہیں۔ ان اداروں کی یونین کہاں ہیں اور تباہی میں ان کا کتنا کردار ہے اس کا حساب کتاب تو ہونا چاہیے۔ حساب کتاب تو اس بات کا بھی ہونا چاہیے کہ مزدور لیڈر تو پانچ مرلے کے گھر سے ایک بڑے بنگلوں تک پہنچ گئے، کارکن بے چارے اپنے تین مرلے کے گھر کے بجلی کا بل ادا کرنے کے بھی قابل نہیں رہے۔
ایک وقت تھا کہ مزدور یونین نے بہت اچھے لیڈرز دیے‘ مختار رانا‘ مرزا ابراہیم‘ فتح یاب علی خان‘ بشیر بختیار‘ عباس باوزیر‘ شفیع ملک اور بہت سے نام ہیں لیکن ان کے نام‘ ان کی جدوجہد اور کارکنوں کے لیے ان کی خدمات کی کہانی دفن کس نے کی کون ہے جو آج ان کی زبان بن کر سامنے ہے صنعتی کارکنوں کی طرح کسانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بھی یونین ہیں‘ برسوں قبل نواب زادہ نصراللہ خان نے ایک یونین بنائی تھی‘ انجمن تحفظ حقوق کاشت کاران تحت الشرعیہ‘ لیکن یہ بھی ملکی سیاسی نظام اور ہمارے معاشرے کے مفاداتی مدو جذر کی نذر ہوگئی۔
بھٹو دور میں ایک ٹرانسپورٹ ہوا کرتی تھی جو بعد میں نواز شریف کے پہلے دور تک رہی‘ جی ٹی ایس اس کا نام تھا‘ اس میں ایک یونین تھی یہ ٹرانسپورٹ کمپنی تو بند ہوگئی لیکن اس کی یونین کے بہت سے لیڈرز خود تو بڑے ٹرانسپورٹر بن گئے پوری جی ٹی ایس لوہے کے بھاؤ فروخت ہوگئی صحافت‘ صنعت کے بعد زراعت کا شعبہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا کسانوں کی یونینوں کی کتابیں بھی اسی طرح کی کہانیوں سے بھری پڑی ہیں۔
پنجاب ایک زرخیز خطہ ہے‘ لیکن یہاں اب زرعی معیشت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تنزلی کی طرف جارہی ہے بدلتی صورتحال کی وجہ سے پاکستان زرعی لحاظ سے اپنے ہم پلہ زرعی ملکوں سے زراعت کے شعبے میں کافی پیچھے رہ گیا ہے۔ شاید یہ فرق آئندہ کئی برسوں میں بڑھتا چلا جائے پاکستان میں زیر کاشت زرعی رقبہ زیادہ تر چھوٹے کسانوں کا ہے ایسے کسانوں کی اکثریت ہے، جن کے پاس چند کنالوں سے لے کر بیس ایکڑ تک زرعی رقبہ موجود ہے۔ یہی کسان ہماری زراعت میں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ یہی وہ کسان ہیں جو برسوں سے پریشان حال و بدحال بھی ہیں۔ زمانے کی اس تیزی نے ان کسانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شعبہ زراعت سے وابسطہ یہ متوسط طبقہ شروع ہی سے پریشان حال چلا آرہا ہے۔ ہر حکومت کی ترجیحات میں شہر اور شہری مسائل ہی شامل رہے ہیں۔ بعض کے نزدیک نہ صرف حکومت بلکہ نام نہاد تنظیموں اور حتی کہ میڈیا کی ترجیحات میں بھی شہری مسائل اور ان کا حل ہی رہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی ترجیحات میں بھی شہر اور شہری آبادی شامل رہی ہے انہیں کوئی غرض نہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا شعبہ زراعت ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کمزور ہو یا پھر پھلے، پھولے۔ اقتدار کا لالچ ہمیشہ سے زرعی علاقوں کو نظر انداز کرتا چلا آیا ہے ممکن ہے اس میں کسانوں کی اپنی کم علمی اور بڑی غلطیاں بھی شامل ہوں اسی وجہ سے انہیں ملنے والی اربوں کی سبسڈی نہ جانے کہاں چلی جاتی ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ کبھی کسی چھوٹے کسان کو براہ راست کسی سبسڈی کا فائدہ نہیں پہنچا۔ زرعی آلات کی قیمتیں اور ان کے معیار، کسانوں کو ٹریکٹر کے نیچے دب کر کٹھن حالات سے چھٹکارے کی نشاندہی کرتے ہیں فصلوں کے نامناسب ریٹ، مڈل مین‘ مراد کاروباری اشرافیہ کے روپ میں ڈیلرز وغیرہ نے تو کسانوں کو جیسے راکھ کرنے، انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے، کا ٹھیکہ لے رکھا ہے، ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کسان انہیں اپنی فصل اونے پونے بیچ جائے۔ ذخیرہ اندوزی ان کا مشغلہ ہوتا ہے آخر کب تک ہماری معشیت اور زراعت مفادات کی نظر ہوتی رہے گی؟
ملک میں مزدور یونینوں کی ایک تاریخ ہے ماضی کے جھروکے میں جھانک کر دیکھا جائے تو ہمارے سامنے ایک صفحہ کھلتا ہے جس کی چند سطریں کچھ اس طرح بیان کی جا سکتی ہیں کہ آل پاکستان فیڈریشن آف لیبرز 1951 میں قائم ہوئی‘ صنعتی کارکنوں کی ملازمتوں کے تحفظ کے لیے اس نے بہت کام کیا‘ بھٹو کی لیبر پالیسی میں مشاورت دی‘ اور 2004 میں پاکستان ورکرز فیڈریشن میں ضم ہوئی اور انٹرنیشنل ٹریڈ یونین کنفیڈریشن میں چلی گئی‘ جب پوری دنیا امریکی اور روسی بلاک میں تقسیم تھی اور سرد جنگ کا زمانہ تھا اس وقت پاکستان میں بھی ہر شعبے میں سرخ اور سبز کی نظریاتی جنگ عروج پر تھی‘ بھٹو کے بعد مارشل لا کے ذریعے ضیاء الحق آئے تو ملک میں سیاست نیم خواندہ سیاست دانوں کے حوالے ہوئی‘ غیر جماعتی انتخابات میں بلدیاتی کونسلرز سطح کے لوگ پارلیمنٹ میں پہنچے‘ ملک میں سبز اور سرخ کی جنگ بھی ختم ہوتی چلی گئی یہی وہ وقت تھا جب صنعتی کارکنوں کی یونین کے لیڈروں کی ایک بہت بڑی تعداد مالی مفادات کے کنویں میں اتر گئی اور سارا پانی صرف اپنے گھر لے گئی۔ آج بھی ملک میں مزدور‘ صحافتی‘ کاشت کاروں کی یونینیں کام کر رہی ہیں‘ مگر کارکنوں کا چولہا نہیں جل رہا‘ اجرت کے مسائل ہیں‘ ملازمتوں کے تحفظ کی ضمانت نہیں ہے‘ کارکنوں کی ایک بہت بڑی تعداد کھیتوں‘ بھٹوں‘ کارخانوں اور فیکٹریوں‘ دکانوں میں حکومت کے طے شدہ معاوضے سے بھی بہت کم معاوضے پر کام کرنے پر مجبور ہیں‘ مزدور لیڈر شپ نے خود کو دکھاوے تک محدور کرلیا ہے‘ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر صحراؤں کے گرم موسم میں کام کرنے والے کارکنوں کے مسائل گفتگو کرنے والے کیا جانیں کہ مزدور کے دکھ کتنے بڑھ چکے ہیں۔