خوف خدا ہو تو۔۔۔

265

اگرچہ پاکستان ٹوٹنے کے اسباب پر حمود الرحمن کمیشن بن چکا اس نے رپورٹ بھی دے دی بھارت کے ذریعے پاکستانیوں کو کچھ حصے پڑھنے کو مل بھی گئے لیکن پاکستانی قوم کو پاکستان ٹوٹنے کے اسباب سے با قاعدہ آگاہ نہیں کیا گیا لیکن پھر بھی بہت سے دانشوران اب بھی پاکستان ٹوٹنے کے اسباب پر روشنی ڈالتے رہتے ہیں ۔ صدر مملکت جناب عارف علوی نے فرمایا ہے کہ پاکستان کرپشن کی وجہ سے ٹوٹا ۔ کہتے ہیں کہ اربوں ڈالر چوری کر کے باہر بھیجے گئے ۔ دو چار ارب کے لیے بھیک مانگتے پھرتے ہیں ۔ صدر صاحب نے اس کا حل بھی بتا دیا کہ خوف خدا ہو تو قانون کی ضرورت ہی نہ رہے ۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ ہم کرپشن کم کر سکتے ہیں لیکن اس پر مکمل قابو پانا ممکن نہیں ۔ صدر مملکت نے یہ باتیں انسداد بد عنوانی کے عالمی دن کی مناسبت سے ایک تقریب میں کہی ہیں ۔ اس تقریب میں چےئر مین نیب بھی موجود تھے ۔ انہوں نے بھی اپنے زریں خیالات سے نوازا اور کہا کہ کرپشن پر سزائے موت ہو تو آبادی کم ہو جائے گی ۔ چےئر مین نیب جسٹس جاوید اقبال کہتے ہیں کہ یہ پوچھنا کون سی گستاخی ہے کہ95 ارب کہاں خرچ ہوئے ۔جن کے پاس پہلے موٹر سائیکل تھی اب دبئی میں ٹاور ہیں ۔ نیب نے پوچھ لیا تو کون سا جرم کیا ۔ جو کرے گا بھگتے گا ۔ وہ وزیر اعظم تھے یا وزیر اعلیٰ یہ اہم نہیں ۔ انہوں نے عزم کا اظہار کیا ہے کہ ڈکٹیش لیں گے نہ انتقام۔۔۔ اس ساری گفتگو کا محور کرپشن ہے ۔ اور اس کی بنیاد پر دانشوران گھوڑے دوڑا رہے ہیں ۔ صدر مملکت کا یہ فرمانا تو بجا ہے کہ پاکستان کرپشن کی وجہ سے ٹوٹا ۔ لیکن یہ بات وہ بھی نہیں بتا سکتے کہ یہ کرپشن کیا تھی اور کس نے کی ۔۔۔ جس نے کرپشن کی اسے کیا سزا ہوئی۔۔۔ مثال کے طور پر ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کس نے کیا ۔ ہتھیار ڈالنے والے نے یہ فیصلہ محض اس لیے مانا کہ اوپر کا حکم تھا یا وہ خود اس کے حق میں تھا ۔ اگر فوج لڑتی رہتی تو بھارت تمام تر سازشوں کے باوجود مشرقی پاکستان کو الگ نہیں کر سکتا تھا ۔ دیگر اسباب تو وہ تھے جن کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں بے چینی بڑھی اور وہ اسباب مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے 47 برس بعد بھی باقی ماندہ پاکستان میں موجود ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ ہیں لیکن یہ حصہ ٹوٹ نہیں رہا ۔۔۔ اس تضاد سے بھی پردہ نہیں اُٹھ رہا اور یہی سب سے بڑی کرپشن ہے کہ سانحہ سقوط مشرقی پاکستان کے اسباب سے پردہ اُٹھا کر پاکستانی حکمران فوج اور اشرافیہ اپنا محاسبہ نہیں کرتے ۔۔۔ اور نہ ہی قوم کو اس کی رپورٹ دیتے ہیں ۔ جناب صدر کا یہ کہنا کہ اربوں ڈالر ملک سے باہر گئے اور دو چار ارب کے لیے بھیک مانگتے پھر رہے ہیں اس کا پاکستان ٹوٹنے سے تو کوئی تعلق نہیں ۔ یہ سب تو پاکستان ٹوٹنے کے بعد ہوا ہے ۔ ہاں صدر نے اس مسئلے کا حل بیان کیا ہے کہ خوف خدا ہو تو قانون کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ بالکل درست فرمایا صدر صاحب نے اسی لیے تو مولانا مودودیؒ سے سراج الحق تک جماعت اسلامی یہ مطالبہ کرتی رہی ہے کہ ایماندار ، دیندار اور جرأت مند قیادت اس ملک کو چلا سکتی ہے ۔ اسے بعد میں دفعہ 62,63 کے پیمانے پر نا پا جانے لگا۔۔۔ لیکن اصل بات یہی تو ہے ۔ اگر ارکان اسمبلی میں خوف خدا ہو تو وہ کرپشن نہیں کریں گے ۔ صدر ، وزیر اعظم اور وزراء میں خوف خدا ہو تو خود کرپشن کریں گے نہ کسی کو کرپشن کرنے دیں گے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے لوگ کہاں سے آئیں گے جن میں خوف خدا ہو تو یہ بات صدر مملکت کو بتانے کی ضرورت نہیں وہ خود وہاں سے آئے ہیں جہاں خوف خدا رکھنے والوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے ۔ اس اسمبلی کے اسپیکر بھی ان ہی لوگوں میں سے ہیں ، اس کے علاوہ مسلم لیگ ن میں بھی ایسے کچھ لوگ موجود ہیں جو اس تربیت گاہ سے نکلے ہیں لیکن نظریہ ضرورت نے انہیں بہت سی کرپشن ہضم کرنے یا غض بصر کرنے پر مجبور کر دیا ہے کچھ لوگ اس رنگ میں رنگے بھی گئے ہیں ۔ ان پر اس تربیت گاہ کا اور اپنے والد کا رنگ زیادہ غالب ہے ۔ اب جبکہ انہوں نے خوف خدا کا حوالہ دیا ہے تو اپنے حصے کے کرنے کا کام تو کر جائیں ان کے پاس پانچ سال ہیں ہر سال پارلیمنٹ سے خطاب میں رہنمائی کریں گے جس طرح انہوں نے وزیر اعظم کو رہنمائی دی تھی کہ رد عمل دینے کے بجائے کام سے کارکردگی کا مظاہرہ کریں اسی طرح وہ حکمت کے ساتھ آنے والی اسمبلی کے دروازے خوف خدا رکھنے والوں کے لیے آسانی سے کھولنے کا کوئی راستہ بنائیں ۔ خود وزیر اعظم ، قاضی حسین احمد ،سید منور حسن اور سراج الحق صاحب کے بہت قریب رہے ہیں وہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ خدا کا خوف رکھنے کا کیا مطلب ہوتا ہے ۔ یہ بات اچھی ہے کہ حکومت میں اعلیٰ سطح پر یہ شعورپایا جا رہا ہے کہ قانون ، ڈنڈا ور زبر دستی سے کوئی کام نہیں ہوگا ۔ خدا خوفی ہی لوگوں کی اصلاح کرے گی ۔ لہٰذا یہ توقع کی جانی چاہیے کہ یہ لوگ اپنے حصے کا کام کریں۔یعنی اپنے حصے کی شمع جلاتے جائیں۔۔۔ جہاں تک چےئر مین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ کرپشن پر سزائے موت ہو تو آبادی کم ہو جائے گی ، سرا سر غلط خیال ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کی تربیت ہی ان خطوط پر ہوئی ہے ۔ ورنہ دنیا کا تجربہ کچھ اور بتا رہا ہے ۔کم از کم اس جرم پر سزائے موت سے آبادی تو کم نہیں ہو گی ۔ چےئر مین نیب جس نظر سے معاملے کو دیکھ رہے ہیں ان کی نظر میں پوری قوم کرپٹ ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کرپشن پر سزائے موت سے کرپشن کم ہو گی ۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں جب تک قتل ، چوری ، ڈاکے ، منشیات وغیرہ پر سزائیں دی جاتی رہیں اس وقت تک امن و امان مثالی رہا ۔ اگر سال بھر میں پندرہ بیس لوگوں کوسزائے موت ہوتی تھی تو پونے دو کروڑ سے زیادہ لوگ سکون کی نیند سوتے تھے لیکن جب اس میں چور راستے نکالے گئے تو نتائج سامنے ہیں ۔ چےئر مین نیب نے95 ارب کا حساب مانگنے کا ذکر کیا ہے ۔ وزیر اعظم ہو یا وزیر اعلیٰ ان کو فرق نہیں پڑتا ۔۔۔ لیکن فی الحال ان کا سارا زور ایک ہی جانب ہے موجودہ سرکار میں بھی بہت سے امیر ’’ترین‘‘ ہیں ۔ ان صفوں میں بہت سے لوگوں کے پاس تو موٹر سائیکل بھی نہیں تھا اب دنیا بھر میں جائداد ہے ۔ اور اب تو صدر صاحب نے بھی اشارہ دے دیا ہے کہ کرپشن کرنے والا ثبوت نہیں چھوڑتااثاثوں سے پکڑا جاتا ہے ۔ نیب کے لیے اچھا اشارہ ہے ۔ وزیر اعظم کی ہمشیرہ سمیت بہت سے لوگوں کے اثاثے نیب کو پکار رہے ہیں ۔