صاحبو! حکومت لوگوں کو روٹی،کپڑا اور مکان دینے میں کامیاب ہوچکی ہے۔ الحمد للہ پورے ملک میں شہریوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ انسان اور جانور اب کہیں ایک ہی جگہ سے پانی نہیں پیتے۔ دیہاتوں میں عورتوں کو تین تین چار چار گھڑے سر پر رکھ کر دور دراز مقام سے پانی لانے کی ضرورت نہیں رہی۔ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بھی حسن وخوبی سے حل کرلیا گیا ہے۔ پابند�ئ وقت سے چلنے والی ٹرینیں ہیں جن کے کرایوں میں حکومت آئے دن کمی کرتی رہتی ہے۔ شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کی وہ فراوانی اور روانی ہے کہ اب صبح اور شام کے اوقات میں بس اسٹاپوں پر لوگوں کارش نظر نہیں آتا۔ کھچا کھچ بھری ہوئی بسیں ان کی چھتوں پر بیٹھے اور دروازوں پر لٹکے ہوئے لوگ اب ماضی کا قصہ ہیں۔ امن وامان کا وہ عالم ہے کہ ملک میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک مہنگے سے مہنگا موبائل تو کجا سونا چاندی اچھالتے نکل جائیں کوئی نظر اٹھا کر نہیں دیکھے گا۔ حادثات کی صورت میں زخمیوں اور لاشوں کو اٹھانے کا وہ بندوبست ہے کہ اللہ اللہ۔ سرکاری اسپتالوں میں علاج معالجے کی ایسی جدید طبی سہولتیں مہیا کردی گئی ہیں کہ غریب جھولیاں پھیلا پھیلا کر حکومت کو دعائیں دے رہے ہیں۔ اسپتالوں کے باہر موجود میڈیکل اسٹوروں پر تالے لگ گئے ہیں۔ مریضوں کو اسپتالوں ہی میں سرکار کی طرف سے ادویات مفت فراہم کی جارہی ہیں۔ کسی کو کیا ضرورت ہے، کس کے پاس فالتو پیسہ ہے کہ میڈیکل اسٹوروں سے مہنگی دوائیں خریدے۔ پرائیوٹ لیبارٹریوں کے مالکان بھی کسی اور دھندے کا سوچ رہے ہیں۔ وہ شاہراہیں افسردہ اور ویران ہیں جن پر چل کر لوگ ان لیبارٹریوں تک آتے اور مہنگے مہنگے ٹیسٹ کراتے تھے۔ اب پیچیدہ آپریشن کے لیے بھی نجی اسپتالوں سے رجوع کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ تعلیم کے شعبے میں تو حکومت نے کمال ہی کردیا ہے۔ طبقاتی تعلیم کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ پورے ملک میں موجود تعلیمی ادارے اب ایک ہی بورڈ اور ایک ہی تعلیمی نظام کے تحت کام کررہے ہیں۔ ملک بھر میں مہنگے نجی اسکول اور کالج اب فلاحی اداروں کی حیثیت اختیار کر گئے۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی فیسیں اتنی کم ہوگئی ہیں کہ غریب کا بچہ بھی پڑھ سکتا ہے۔ گورنمنٹ اسکولوں کو حقارت سے پیلا اسکول کہنے کی کسی میں جرأت نہیں۔ اب یہ اسکول سہولتوں سے مزین بہترین درس گاہوں کا منظر پیش کررہے ہیں۔ دیہی علاقوں میں اسکولوں کی جن عمارتوں میں زمیندار، وڈیرے، خان، سردار اور دیگر بااثر افراد اپنے جانور باندھتے تھے۔ انہیں واگزار کرالیا گیا ہے۔ ان تمام لوگوں کو اس جرم عظیم کی پاداش میں جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ اب گاؤں دیہاتوں کے بچے صاف ستھرے لباسوں میں صبح ہی صبح اسکول آتے ہیں اور تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب پس ماندہ علاقوں میں بچے درختوں تلے ننگے فرش یا دریوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے تھے اب وہ زمانے گزر گئے۔ طعنہ دیا جاتا تھا کہ پاکستان اپنی کل ملکی پیداوار کا 2.8فی صد تعلیم پر خرچ کرتا ہے جب کہ جنگ زدہ افغانستان 4فی صد، بھارت 7فی صد حتی کہ روانڈا 9فی صد خرچ کرتا ہے۔ اب حکومت تعلیم کے شعبے میں اتنا خرچ کررہی ہے کہ پاکستان دنیا کے لیے ایک مثال بن گیا ہے۔
پاکستان میں چالیس فی صد سے زیادہ آبادی کو صرف ایک وقت کھانا میسر تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ ملک سے بھوک کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ اب ملک میں کوئی بھوکا نہیں سوتا۔ اب کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں پر فاقہ کش، غریب اور بھوکے بچے خراب اور سڑا ہوا کھانا چن کر کھاتے نظر نہیں آتے۔ وہ پھولوں کی ڈار جیسے بچے جو اپنے قد سے بڑی جھاڑو پکڑے سڑکوں پر صفائی کرتے نظر آتے تھے، بڑے بڑے میلے کچیلے تھیلے اٹھائے، گندے کپڑوں اور بدبو زدہ جسموں کے ساتھ کچرا اٹھا کر اپنی روزی کماتے تھے اب علم حاصل کررہے ہیں۔ ان کے کاندھوں پر تھیلے نہیں اسکول بیگ لٹکے ہیں۔ ان بیگوں سے کتابوں کی خوشبو آتی ہے۔ وہ بچے جو غربت کی باعث ہوٹلوں میں بیراگیری کرتے تھے، میزیں کرسیاں صاف کرتے تھے، ہوٹل مالکان، بڑے ملازموں اور گاہکوں سے گالیاں کھاتے تھے، ورکشاپوں میں اوئے چھوٹے کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ ان بچوں کے والدین نے اب انہیں ان ذلت گاہوں سے اٹھا لیا ہے۔ اب والدین کفالت کی اس منزل پرہیں کہ انہیں اپنے جگر گوشوں سے ایسے حقیر کام کروانے کی ضرورت نہیں رہی۔ حکومت کی توجہ کی وجہ سے اب اشیاء صرف کی قیمتیں تیزی سے نیچے آرہی ہیں۔ اب یہ کہنے والے شاذ ہی رہ گئے ہیں کہ گزارہ نہیں ہوتا۔ چیزیں لوگوں کی دسترس میں آتی جارہی ہیں۔ مہنگائی آسمان سے اتر رہی ہے۔ اب گاہک چیزوں اور چیزیں گاہکوں کو حسرت سے نہیں دیکھتیں۔ وہ لوگ جو کچے پکے مکانوں اور جھونپڑیوں میں رہتے تھے، جن کی چھتیں بارش میں ٹپکتی تھیں اب پختہ مکانوں میں رہتے ہیں۔ انہیں رہائش کی سہولتیں مہیا کردی گئی ہیں۔ حکومت نے سب کو پکے مکانات مہیا کردیے ہیں۔ اب لوگوں کو کرایے کے گھروں میں رہنے کی ضرورت نہیں رہی۔ جتنے پیسے وہ کرایے کی مد میں دیتے تھے اب اتنے ہی پیسے قسطوں کی مد میں دے کر وہ اپنے گھروں کے مالک بن رہے ہیں۔ بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتیں کم کردی گئی ہیں۔ اب وہ دور نہیں رہا کہ بجلی کے بل دیکھ کر غریب کی چیخ نکل جائے۔ اوور بلنگ کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ اب بجلی کے دفتروں میں شکایت کنندگان کی بھیڑ نظر نہیں آتی۔ لوڈ شیڈنگ کا مکمل طور پر خاتمہ کردیا گیا ہے۔ پٹرول کی قیمتیں اب ماہانہ بنیادوں پر گھٹتی بڑھتی نہیں ہیں۔ روپے کی ترقی دیکھ کر امریکی ڈالر شرم سے پانی پانی ہورہا ہے۔ شاعر نے کہا تھا
مجرم ہو بارسوخ تو قانون کچھ نہیں
کس نے یہ درج کردیا میزان عدل پر
اب کسی کو یہ کہنے کی جرات نہیں رہی۔ اب ایسا عدالتی نظام اور نظام انصاف رائج کردیا گیا ہے کہ ہماری عدالتیں تیز رفتاری سے فیصلے کررہی ہیں۔ وہ لاکھوں زیر التوا مقدمات جو عشروں سے فیصلوں کے منتظر تھے نمٹادیے گئے ہیں۔ معمولی مقدمات میں جو لوگ برسوں سے ملوث تھے اور جرم کی نوعیت سے زیادہ سزا کاٹ چکے ہیں انہیں رہا کردیا گیا ہے۔ عدالتوں میں اب کوئی کام ہی نہیں رہا۔ چیف جسٹس صاحب دوبچوں اور ڈیم کی تعمیر میں مصروفیت تلاش کررہے ہیں۔
کئی دہائیوں سے بلڈر مافیا نے پورے ملک میں اندھیر مچایا ہوا تھا۔ سیکڑوں پلازے اور مارکیٹیں سرکاری زمینوں پر قبضہ کرکے یا اپنی حدود سے تجاوز کرکے بنا لی گئیں۔ حکومت نے ایک کرش پروگرام کے تحت ان تمام پلازوں، مارکیٹوں اور عمارتوں پر بلڈوزر چلادیے ہیں۔ بڑے بڑے وزیر وزرا اور سرکاری حکام نے کوششیں کیں لیکن حکومت نے کسی کی نہیں سنی۔ بنی گالا ریگولرائز ہوجائے یا ڈی ایچ اے حکومت نے یہ سب باتیں چھوڑ کر انہیں بھی گرادیا ہے۔
حکومت نے یہ سارے کام کرلیے تھے۔ بس ایک کسر رہ گئی تھی، صرف ایک مسئلہ باقی رہ گیا تھا۔ شہروں کی خوبصورتی کا۔ مثال کے طور پر کراچی کے مرکز صدر کو خوبصورت بنانے کی اشد ضرورت تھی۔ جب ہم لندن پیرس، نیویارک، واشنگٹن وغیرہ کو دیکھتے اور پھر کراچی کو دیکھتے تھے تو کتنی شرمندگی ہوتی تھی۔ میلی کچیلی تجاوزات، ان میں میلے کچیلے غریب، سستی اشیا خریدتے ہوئے، کتنا بدنما لگتے تھے۔ لائٹ ہاؤس کی تنگ وتاریک دکانوں میں سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے لیے لوگ پرانے کپڑے خریدتے تھے۔ کراچی کے لائٹ ہاؤس کو سارے ملک کے لنڈہ بازاروں کی ماں کہا جاتا تھا۔ یہ سارے بازار، ان میں کام کرنے والے دکاندار، ملازم، سیلز مین، مزدور بچے، گاہکوں کو شربت پلانے والے ٹھیلے، سستی کٹ چائے پلانے اور سستا کھانا مہیا کرنے والے اللہ کی رحمت کے غریب نواز ہوٹل، کاندھوں پر وزن ڈھونے والے مزدور، روزی کمانے والے غریب یہ سب تجاوزات تھے۔ ان کے خاتمے کے لیے ایک چھوٹا سا قتل عام ملک وقوم کی ضرورت تھا۔ ان غریبوں کو روزگار کمانے، ان کیڑے مکوڑوں کو جینے کا کوئی حق نہیں۔ غربت کے خاتمے کا ایک ہی طریقہ ہے غریبوں کا خاتمہ۔