نیا نو دن، پرانا سو دن

518

حکومتیں پہلے بھی اپنے ابتدائی سو دن پورے کرتی رہی ہیں لیکن یہ دن گزر جاتے تھے اور کسی کو کانوں کان بھی خبر نہ ہوتی تھی کہ حکومت نے سو دن کا معرکہ سر کرلیا ہے اور اب وہ نئی کامیابیوں یا ناکامیوں کی طرف گامزن ہے، اپوزیشن بھی صبر کرکے بیٹھ جاتی تھی کہ بُری یا بھلی جیسی بھی حکومت ہے اسے پانچ سال برداشت ہی کرنا پڑے گا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان تو باقاعدہ ’’میثاق جمہوریت‘‘ کی صورت میں ایک معاہدہ موجود تھا کہ نہ تم ہماری حکومت کو چھیڑو گے نہ ہم تمہاری حکومت کو چھیڑیں گے اور باری باری اقتدار کا جھولا جھولتے رہیں گے۔ شاید پاکستان میں جمہوریت اسی طرح پھلتی پھولتی رہتی لیکن عمران خان نے درمیان میں کود کر کام خراب کردیا۔ سچ کہا ہے شاعر نے
کودا ترے آنگن میں کوئی دھم سے نہ ہوگا
وہ کام کیا ہم نے جو رستم سے نہ ہوگا
عمران خان جمہوریت کے آنگن میں یوں دھم سے کودے کہ دونوں خاندانی سیاسی جماعتوں کی سُٹی گُم ہوگئی۔ کہا جاتا ہے کہ غیبی طاقتیں بھی عمران خان کی پشت پر تھیں، عدلیہ کی ہمدردی بھی ان کے ساتھ تھی، اس طرح انہوں نے 2018ء کا انتخابی معرکہ دھاندلی کے شور شرابے میں بڑی آسانی سے جیت لیا اور اقتدار کے منہ زور گھوڑے پر اُچھل کر سوار ہوگئے پھر انہوں نے قوم کو مخاطب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ دیکھنا ہماری حکومت اپنے پہلے سو دن میں کیا کیا معرکے سَر کرتی ہے۔ اب سو دن مکمل ہوئے ہیں تو پورے ملک میں سو دن کی عمرانی کارکردگی پر ایک مشاعرہ برپا ہے۔ حکومتی شعرا اس موضوع پر دو غزلے سہہ غزلے کہہ رہے ہیں جب کہ مخالف کیمپ کے شعرا ہجو کہنے میں مصروف ہیں۔ ایسا ہنگامہ برپا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی، ایسے میں ہمارے دوست نے یہ مثل بیان کی ہے ’’نیا نو دن پرانا سو دن‘‘ مطلب یہ کہ نئی چیز اپنی آب و تاب صرف نو دن ہی برقرار رکھ پاتی ہے پھر وہ پرانی ہوجاتی ہے اور اس کا پرانا پن سو دن برقرار رہتا ہے بلکہ سو دن کے بعد بھی یہ چیز زیر استعمال رہتی ہے۔ کثرت استعمال سے یہ چیز گھِس جاتی ہے اس کے خدوخال بگڑ جاتے ہیں۔ اس کا نیا نویلا پن خواب و خیال ہوجاتا ہے لیکن استعمال کرنے والا اسے چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ عمرانی حکومت کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اس نے نو دن تو خوب چمک دکھائی، اعلان ہوا کہ عمران خان اور ان کے وزرا پروٹوکول نہیں لیں گے، ملک کو ریاست مدینہ کی طرز پر چلایا جائے گا، کرپشن پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا، ہر کام میرٹ پر ہوگا، قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے گا، قرضوں میں ڈوبی ہوئی قومی معیشت کو سنبھالنے کے لیے دوست ملکوں کے آگے ہاتھ پھیلالیں گے لیکن آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، ملک میں 50 لاکھ گھر بنائیں گے، ایک کروڑ بیروزگاروں کو روزگار فراہم کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن نئی حکومت کے نو دن ختم ہوتے
ہی یہ ساری چمک دمک ماند پڑ گئی اور پرانی حکومتوں کا پرانا پن عمرانی حکومت پر بھی غالب آگیا۔ اس نے سو دن تو اس دعوے کے ساتھ گزارے تھے کہ وہ اِن دنوں میں آسمان سے تارے توڑ کر عوام کے ہاتھ پر رکھ دے گی اور انہیں نہال کردے گی لیکن ہوا یہ کہ عمرانی حکومت کے آتے ہی مہنگائی کو پَر لگ گئے، اشیائے صرف کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگیں، کرپشن پر سمجھوتا اسی طرح ہوا کہ جن اتحادیوں پر کرپشن اور لوٹ مار کا الزام تھا انہیں کابینہ میں شامل کرلیا گیا، ریاست مدینہ کا خواب دکھانے والوں نے عوام کے چھکے چھڑا دیے، ہر طرف خوف اور بے یقینی کے سایے منڈلانے لگے، وزیراعظم نے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے دوست ملکوں کے آگے ہاتھ تو پھیلائے اور انہیں وہاں سے کچھ امداد بھی ملی لیکن درپردہ آئی ایم ایف کی خوشامد بھی جاری رہی اور اس کے دباؤ پر روپے کی قدر کم کی جاتی رہی۔ وزیر خزانہ اسد عمر جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ معیشت کے میدان میں بڑی نابغہ روزگار ہستی ہیں اور وہ اپنے اپنے ناخنِ تدبیر سے قومی معیشت کی اُلجھی ہوئی گتھیاں سلجھالیں گے اور ملک معاشی گرداب سے نکل آئے گا لیکن جب خزانے کی کنجیاں ان کے حوالے کی گئیں تو پتا چلا کہ وہ قفل کھولنا ہی نہیں جانتے، وہ تحریک انصاف میں آنے سے پہلے ایک کاروباری ادارے کے بزنس ایگزیکٹیو تو ضرور رہ چکے تھے لیکن معیشت دان ہرگز نہ تھے انہیں قومی معیشت کی الف بے کا بھی پتا نہ تھا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان کی سربراہی میں قومی معیشت بُری طرح ہچکولے کھارہی ہے، روپیہ تیزی سے گر رہا ہے اور پاکستان آئی ایم ایف سے کوئی بیل آؤٹ پیکیج لینے سے پہلے ہی اس کے جال میں بُری طرح پھنس گیا ہے۔
عمرانی حکومت کا دعویٰ تھا کہ اس کے دور میں ہر کام میرٹ پر ہوگا اور وہ قانون کی بالادستی کو ہر حال میں یقینی بنائے گی لیکن وفاقی وزیر اعظم سواتی اور وفاقی مشیر زلفی بخاری کے معاملے میں حکومت کا یہ دعویٰ بھی ہوا میں اُڑ گیا ہے۔ اعظم سواتی کے خلاف عدالت عظمیٰ کی قائم کردہ جے آئی ٹی نے رپورٹ پیش کردی ہے جس میں اعظم سواتی کو اپنے غریب ہمسایوں کے ساتھ زیادتی کا مرتکب قرار دیا گیا ہے لیکن وزیراعظم ان سے استفا لینے کو تیار نہیں ہیں۔ رہا زلفی بخاری کا معاملہ تو وہ دہری شہریت کے حامل اور کئی آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں، نیب میں ان کے خلاف انکوائری چل رہی ہے لیکن محض دوستی کی بنیاد پر انہیں اوورسیز پاکستانیوں کے امور کا مشیر مقرر کردیا گیا ہے اور وزیراعظم اپنے اس فیصلے سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ دیکھا جائے تو حکومت ہر طرف سے بحرانوں میں گھری ہوئی ہے لیکن وہ خود ان بحرانوں سے نکلنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ اصل بات وہی ہے جو امیر جماعت محترم سراج الحق نے کہی ہے کہ عمران خان نے حکومت سنبھالنے کے لیے کوئی ٹیم ہی تیار نہیں کی تھی حالاں کہ انہیں معلوم تھا کہ حکومت انہیں ملنے والی ہے، جب حکومت انہیں مل گئی تو وہ اب اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ ’’نیا نو دن پرانا سو دن‘‘ کے مصداق نو دن میں ان کا نیا پن اُتر گیا اور سو دن میں انہوں نے جو کچھ پیش کیا ہے وہ وہی ہے جو پرانے حکمران کیا کرتے تھے۔