رفاہی پلاٹوں پر خلاف قانون تعمیرات کون ختم کرے گا ؟ 

226

تجاوزات کے خلاف عدالت عظمیٰ کے واضح احکامات پر جو کچھ شہر میں کیا جارہا ہے وہ کسی طور پر عدالت عظمیٰ کے مقاصد اور ہدایات کے مطابق نہیں ہورہا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کے خلاف مقدمے کی سماعت میں شہر کے تمام رفاہی پلاٹوں سے ناجائز تعمیرات کو منہدم کرنے کا حکم کے ایم سی، کے ڈی اے، ایس بی سی اے اور دیگر اداروں کو دیا تھا۔ اس حکم میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ پارکوں، کھیل کے میدانوں سمیت 32 ہزار مقامات پر غیر قانونی قبضہ ہے جسے فوری طور پر ختم کردیا جائے۔ لیکن متعلقہ اداروں نے تاحال شہر کے کسی پارک اور دیگر رفاہی پلاٹوں سے کوئی بھی قابل ذکر تعمیرات منہدم نہیں کی۔ تاہم ایک اور سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے ہدایت کی تھی کہ ایمپریس مارکیٹ کے آس پاس موجود تجاوزات کو ہٹانے کے ساتھ شہر بھر کی سڑکوں پر پھیلے ہوئے پتھاروں اور ٹھیلوں کو ہٹاکر سڑکوں کو صاف کیا جائے۔ اس حکم پر بلدیہ کراچی نے نہ صرف ایمپریس مارکیٹ کے اندر موجود 1857 کی تاریخی دکانوں کو منہدم کیا بلکہ اس کے قریب موجود اس عمر فاروقی مارکیٹ کو بھی منہدم کردیا جسے کے ایم سی نے 1960 میں آباد کیا تھا اور یہاں کی دکانوں سے کرایہ بھی وصول کیا جاتا تھا۔ منتخب میئر وسیم اختر نے عدالت عظمٰی کے حکم سے فائدہ اٹھا کر تجارتی علاقوں کو ترجیحی بنیادوں پر نشانہ بنایا۔ ایسا کرکے لاکھوں افراد کے کاروبار کو نقصان پہنچایا۔ یہی نہیں سڑکیں اور فٹ پاتھوں پر موجود صرف ان دکانوں کے خلاف کارروائی کی گئی جنہوں نے اپنے دکانوں کو غیر قانونی وسعت دے دی تھی۔ ان دکانوں کے سن شیڈ کو بھی بے دردی سے گرا دیا گیا جن کے سائز میں متعلقہ ضلعی بلدیاتی کے بدعنوان عملے سے مل کر اضافہ کردیا تھا۔ اس کارروائی کے دوران بلدیہ اور
دیگر اداروں کے عملے نے ملبے کو فٹ پاتھوں اور سڑکوں کے کناروں پر ہی کئی روز تک چھوڑ دیا تاکہ بتایا جائے کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا گیا ہے۔ رہی بات کھیل کے میدانوں اور پارکوں سمیت تمام رفاہی پلاٹوں پر قبضے اور ناجائز تعمیرات کی تو اسے بہت چالاکی سے نظر انداز کردیا گیا۔ اب جب کہ عدالت کی جانب سے رفاہی پلاٹوں کے حوالے سے دباؤ بڑھ رہا ہے تو میئر وسیم اختر اور ان کی جماعت متحدہ قومی موومنٹ بے چین ہوگئی ہے۔ اس بے چینی میں میئر وسیم اختر نے کہا کہ کچھ سیاسی جغادری عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے گھر تو درکنار کسی جھگی کو بھی نہیں گرایا‘‘۔ سچ تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں نے کسی رفاعی پلاٹ پر تعمیرات کو منہدم کرنے پر ابھی کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ جماعت اسلامی کے رہنما اور سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خاں اور محمد یونس بارائی نے تو خود ہی رفاہی پلاٹوں سے چائنا کٹنگ ختم کرکے پارکوں کے پلاٹس کو ان کی اصل حالت میں بحال کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا ہوا ہے۔ اس لیے وہ کبھی بھی ایسے پلاٹوں کے خلاف کارروائی کی مخالفت نہیں کریں گے۔ کھیل کے میدانوں اور پارکوں پر ناجائز رہائشی اور تجارتی تعمیرات کی مخالفت صرف وہ عناصر کررہے ہیں جو خود اس معاملے میں براہ راست ملوث رہے ہوں اور جنہوں نے اس کی پشت پناہی کرکے کراچی سے اربوں روپے وصول کیے۔
سب ہی جانتے ہیں کہ چائنا کٹنگ کرکے رفاہی پلاٹوں کی کس نے بند بانٹ کی اور کن لوگوں نے سادہ لوح افراد کو غیر قانونی پلاٹس اور مکانات فروخت کیے۔ یہ بات درست ہے کہ ایسی غیر قانونی تعمیرات خریدنے والوں کا صرف اتنا قصور ہے کہ انہوں نے مجبوراً سستے داموں رہائش کی غرض سے یہ چائنا کٹنگ کے مکانات خریدے لیکن اصل ذمے دار صوبائی اور قومی اسمبلی میں موجود وہ کراچی کے نام نہاد حق پرست نمائندے تھے جو رفاہی پلاٹوں پر قبضوں کا تماشا دیکھتے رہے۔ میئر وسیم اختر نے تو واضح کردیا کہ وہ کسی رہائشی تعمیرات کو نہیں گرائیں گے، یہ موقف اختیار کرکے کیا وہ پورے شہر میں رفاہی پلاٹوں کی چائنا اور لاڑکانہ کٹنگ کو تحفظ دینا چاہ رہے ہیں یا ان کا مقصد ہائی وے پر دفاعی ادارے کے نام سے بننے والی پڑی رہائشی اسکیم کو مدد فراہم کرنا ہے۔ اگر یہ بات خدانخواستہ درست ہے تو پھر رفاہی اور دیگر پلاٹوں کی غیرقانونی تعمیرات کون کون ختم کرے گا؟ میرا سوال نہیں بلکہ عرضداشت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے بھی ہے۔ ان ناجائز تعمیرات اور زمینوں پر غیرقانونی قبضوں میں مبینہ طور پر متعلقہ اداروں کے محکمہ لینڈ، ماسٹر پلان اور اینٹی انکروچمنٹ کے وہ تمام افسران اور ملازمین بھی ملوث ہیں جن کا کام ایسی کارروائیوں کو روکنا اور ختم کرنا تھا۔ جو سب کے سب ان دنوں بھی سکون سے تماشا دیکھ رہے ہیں جس کا انہوں نے ہی اہتمام کیا تھا۔ عدالت عظمیٰ کو چاہیے کہ 2008 تا 2015 مذکورہ محکموں کے اہل کاروں کو فوری گرفتار کرکے تحقیقات کا حکم دے اور ان ہی سے ناجائز تعمیرات کے متاثرین کو معاوضہ دلائے۔
آج شہر بھر میں کے ایم سی خصوصی طور پر ان قانونی دکانوں، بینکوں، ہوٹلوں اور شو روموں سے متصل فٹ پاتھ کو ماربل اور دیگر ٹائلوں سے خوبصورت کردیا تھا۔ بلدیاتی ادارے بیوٹی فکیشن کے نام پر پیشگی اور سالانہ ٹیکس بھی وصول کیا کرتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ دکانوں وغیرہ کے سامنے کے فٹ پاتھ کو خوبصورت بنانے پر جو اخراجات کیے گئے تھے اور اس مد میں جو ٹیکس وصول کیے گئے تھے کیا وہ میئر وسیم اختر اور ان کے ماتحت متعلقہ افسران متاثرین کو دے پائیں گے؟ حکام اور عدلیہ کو چاہیے کہ لینڈ اینٹی انکروچمنٹ کا ریکارڈ قبضے میں لیکر چیک کیا جائے کہ مزکورہ ڈپارٹمنٹ کس مد میں کتنا ٹیکس وصول کیا کرتے تھے۔ اسی طرح سن شیڈ وغیرہ کا بھی ٹیکس ضلعی بلدیاتی ادارے پابندی سے وصول کیا کرتے تھے۔ ان ٹیکسوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ سب قانون کے دائرے میں تھا۔ عدالت عظمٰی کی نیک نیتی سے کی گئی کارروائی کو جو عناصر قانونی تعمیرات کے خلاف ایکشن کی آڑ میں آلودہ اور متنازع بنانے کی کوشش کررہے ہیں انہیں بھی عدالت میں طلب کرکے سخت کارروائی کرنی چاہیے۔ اگر عدالت عظمیٰ کے حکم پر رفاہی پلاٹوں کی تعمیرات ختم نہیں کی گئی تو پھر اس گرینڈ ایکشن کے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔ عدالت عظمیٰ اور ذمے دار حکام کو چاہیے کہ معلوم کرے کہ کاروباری علاقوں میں تجاوزات کے نام پر جو انہدامی کارروائی کی گئی ہے اس کی مشینری کس ادارے کے تعاون سے حاصل کی گئی ہے۔ اطلاعات ہے کہ سپر ہائی وے پر موجودہ دفاعی ادارے کے نام سے منسوب متنازع ہاؤسنگ کے منصوبے کے کرتا دھرتا اور بلدیہ کراچی کی اہم شخصیت عدالت کے حکم کو متنازع بنانے کی سازش میں ملوث ہیں تاہم امکان ہے کہ وہ ایسی کسی سازش میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے بلکہ خود ہی اس میں پھنس جائیں گے۔