عقل و دانش کا تقاضا

196

عادل اعظم میاں ثاقب نثار نے ڈیم فنڈ قائم کیا اور قوم کو یہ باور کرایا کہ ڈیم کی تعمیر ہمارا قومی فریضہ ہے سو، لازم ہے کہ اس کارخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے اگر قوم کا ہر فرد ڈیم فنڈ میں دس روپے بھی عطیہ دے تو آنے والی نسلیں خوشحال زندگی گزار سکیں گی۔ شاداب اور زرخیز ملک ہی خوشحالی کا ضامن ہوتا ہے۔ زمین پیاسی ہو تو اس پر آباد قوم کے نصیب میں بھوک اور افلاس لکھ دیا جاتا ہے۔ من حیث القوم ہمارا فرض ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کے لیے خود کو وقف کردیں۔ کہنے کو تو یہ تبصرہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ اگر قوم کے چندے ہی سے ڈیم بنانے ہیں تو پھر حکومت کا کیا جواز ہے؟الیکشن پر قومی خزانہ برباد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور ارکان اسمبلیوں کو قوم کے خون پسینے کی کمائی پر عشرت گہہ ضرر سے نوازنے کی کیا تُک ہے مگر ہم ایسا کچھ نہیں کہنا چاہتے البتہ چیف جسٹس پاکستان سے یہ گزارش ضرور کریں گے کہ جعلی مقدمات کا جو انبار عدالتوں میں لگا ہوا ہے اسے عقل و دانش کی کرین سے ہٹادیں تو یہ قوم پر احسان ہوگا اور قوم اس کے صلے میں دس ہزار سے پچاس ہزار روپے کا عطیہ ڈیم فنڈ میں دینے سے قطعاً گریز نہیں کرے گی، کیوں کہ جعلی مقدمات اور پھر اپیل در اپیل کے غیر دانش مندانہ رویے نے سائلین کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ عدالتوں میں لاکھوں ایسے مقدمات ہیں جو تاخیر کی وجہ سے بوسیدہ ہوچکے ہیں، لیفٹ اوور کے ہتھوڑے کھا کھا کر اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ جسٹس صاحبان ہاتھ لگاتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ من حیث القوم ہم وقت کے تقاضے پر کان دھرتے ہیں نہ عقل کے اشارے پر
آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاید ہمارا قومی المیہ یہ بھی ہے کہ نظام عدل میں کامن سینس کا فقدان ہے، کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ اس بے ہودہ نظام میں کوئی بھی ایسا معقول شخص موجود نہیں جو اس حقیقت کا ادراک کرسکے کہ جعلی اور بے مقصد مقدمات کی سماعت کیوں کی جاتی ہے؟! جعل سازوں اور پیشہ ور مقدمے بازوں کی پشت پناہی کیوں کی جاتی ہے؟۔ پیشی در پیشی، لیفٹ اوور پیشی منسوخ کرکے مقدمات کو طوالت کیوں دی جاتی ہے؟! حالاں کہ اس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ عدالتوں کا یہ رویہ حق دار کو اس حد تک بے بس کردیتا ہے کہ وہ جعل سازوں اور مقدمہ بازوں کی منت سماجت پر مجبور ہوجاتا ہے اور پھر ان کی شرائط کے سامنے سرنگوں ہوجاتا ہے اور اپنی جائداد اونے پونے داموں بیچ کر لیفٹ اوور کی اذیت ناک مار سے جان چھڑالیتا ہے اگر عدالتیں ایسے مقدمات کی فوری سماعت کرکے حق دار کو اس کا حق دلائیں تو ڈیم فنڈ میں اتنے عطیات مل سکتے ہیں جو ڈیم کی تعمیر میں سہولت کا سبب بن سکتے ہیں۔ ہم انہی کالموں میں یہ گزارش کرچکے ہیں، عادل اعظم نے تو اس پر کوئی توجہ نہ دی مگر کراچی کی سیشن کورٹ کے ایک جج صاحب نے اسے عملی جامہ پہنا کر ثابت کردیا ہے کہ ڈیم کی تعمیر کے لیے عدالتی رویہ انتہائی مفید اور کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ اخباری اطلاع کے مطابق ضمانت کے ایک مقدمے میں چار ملزمان کی ضمانت بحال کرنے کے لیے یہ شرط لگائی گئی کہ ملزمان ڈیم فنڈ میں دس دس ہزار روپے عطیہ دیں تو ان کی ضمانت بحال ہوسکتی ہے، فوری طور پر چالیس ہزار روپے عطیہ دیا اور یوں ملزمان کی ضمانت بحال ہوگئی۔ اگر اس مثال پر عمل کیا جائے تو ڈیم فنڈ میں بہت سا عطیہ مل سکتا ہے اور عدالتوں میں برسوں سے دھکے کھانے والے بھی پیشی در پیشی کے ابلیسی چکر سے نجات پاسکتے ہیں۔