سوال دیگر جواب دیگر

230

’’وعلیکم السلام۔ فرمائیے۔ غالباً آپ پہلی مرتبہ تشریف لائے ہیں؟‘‘۔
’’جی ہاں، آپ درست فرما رہے ہیں۔ عظیم فلاسفر شہزادر رائے نے بہبود آبادی کا نفرنس میں جو بارہ منٹ کی ویڈیو دکھائی اس سے متاثر ہوکر وزیراعظم عمران خان نے یہ طے کیا ہے کہ حکومت کم بچے پیدا کرنے کا شعور اجاگر کرنے کے لیے مولویوں کو آن بورڈ لے گی۔‘‘
’’جی بہتر ہے۔ حکومتی حلقوں میں شرکت میرے لیے سعادت کا باعث ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان نے پاکستان میں پہلی مرتبہ مدینے جیسی ریاست کا جو تصور پیش کیا ہے اس کے لیے دل کی گہرائیوں سے ان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اسلام کی پندرہ سو سالہ تاریخ میں وہ پہلے حکمران ہوں گے جو سودی سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے مدینے جیسی ریاست بنائیں گے۔ ایک بار پھر مبارک باد پیش کرتا ہوں‘‘۔
’’جناب استاد دامن کا کوئی شعر یاد ہے آپ کو۔ میں دراصل یہ دریافت کرنا چاہ رہا ہوں کہ زندگی کے لیے حکمت عملی، نظریہ، پالیسی یا عملی کام کرنے کے لیے ہم اسلام کے واضح احکامات کے ہوتے ہوئے، ان احکامات سے متصادم استاد دامن کے اشعار کو بنیاد بناسکتے ہیں۔‘‘
’’آپ کون ہیں بھائی؟ مجھے کیوں پھنسوانا چاہتے ہیں؟ آپ کا اشارہ محترم چیف جسٹس کی طرف ہے۔ تقریب میں موجود بڑے بڑے علماء کرام کو ان کے سامنے کلم�ۂ حق کہنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ میں بیچارہ کس شمار قطار میں۔ آپ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘
’’جی، میں اسلام آباد میں رہتا ہوں۔ کچھ باتیں میرے علم میں ہیں۔ ان کی تصدیق کرنے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کیا اسلام دو سے زاید بچوں کی پیدائش کو ناپسندیدہ قرار دیتا ہے؟‘‘
’’آپ اسلام آباد میں رہتے ہیں آپ کا تو یہ سوال کرنا بنتا ہی نہیں ہے۔‘‘
’’اب آہی گیا ہوں تو پلیز بتا دیجیے کہ کیا اسلام میں دو سے زیادہ بچے پیداکرنے کی مما نعت ہے۔؟‘‘
’’اللہ نے قرآن میں کائنات کے پروجیکٹ کے بارے میں عظیم نکات بیان فرمائے ہیں۔ پورے کائناتی پروجیکٹ کو ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ پورا نقشہ بناکر بتادیا ہے کہ زمین سے لے کر آسمان تک جوکچھ ہے تیرے اللہ نے کیسے بنایا ہے۔ خالق بھی اللہ ہے اور مالک بھی اللہ ہے۔‘‘
’’جی درست ہے! لیکن میں معلوم یہ کرنا چاہتا ہوں کہ کیا اسلام دو سے زیادہ بچوں کی پیدائش کی مخالفت کرتا ہے‘‘۔
’’کائناتی پروجیکٹ بیان کرنے کے بعد اللہ انسانی پروجیکٹ بیان کرتا ہے تو اپنا تعارف اور طرح سے کراتا ہے۔ مٹی سے نکالا پھر ماں کے پیٹ میں ٹھیرایا، پانی بناکے، پھر اسے ایک جونک بنایا پھر اسے ایک لوتھڑا بنایا پھر اس میں ہڈیوں کو پرویا پھر اس پر گوشت کو چڑھایا پھر یہ شکل عطا فرمائی۔ تین اندھیروں میں تمہارا ربّ تمہیں بناتا ہے۔ اس کے بعد اللہ اپنا تعارف کراتا ہے کہ کیا کہنے تیرے ربّ کے جو سب سے خوبصورت بنانے والا ہے‘‘۔
’’جزاک اللہ۔ لیکن حضرت میرا سوال کچھ اور ہے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے مجھے دو سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے یا نہیں‘‘۔
’’انسان کتنا عظیم پروجیکٹ ہے لیکن اس بے چارے کو کتنی عجیب صورتحال سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ ایک حدیث میں اللہ کہتا ہے میرے بندے ماں کے پیٹ میں ٹھکانہ میں نے دیا پھر تیرے سسٹم اور تیری ماں کے سسٹم کو جدا کردیا تاکہ ماں کے پیٹ میں جو غلاظت جمع ہوتی ہے اس کی بدبو تجھے پریشان نہ کرے۔ تجھے ماں کے پیٹ میں میں نے بیٹھنا اٹھنا چلنا کھیلنا سکھایا حرکت کرنا سکھایا کیا تیرے ربّ کے سوا کوئی اور بھی یہ کرسکتا ہے؟۔
’’حضرت اللہ کی قسم لے لیجیے مجھے کامل یقین ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور یہ نہیں کرسکتا لیکن میں بچوں کی تعداد کے بارے میں اسلام کا نکتہ نظر معلوم کرنے کے لیے آپ کے پاس آیا ہوں‘‘۔
’’اسی حدیث میں آگے چل کر اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے، اے انسان جب تیرا دنیا میں آنے کا وقت آیا تو تیرے ربّ نے تیرے آنے کا راستہ آسان کردیا۔ جب تو آیا تو فرشتے کے پر پہ آیا۔ جب تو آیا تو تیرے منہ میں دانت نہیں کہ کاٹ سکے، تیرے ہاتھ میں طاقت نہیں کہ پکڑ سکے، تیرے پاؤں میں جان نہیں کہ چل سکے۔ جب تو ایسا بے بس تھا تو میں نے تیری ماں کی چھاتی سے دودھ کے چشمے نکالے‘‘۔
’’حضرت میں آپ کو کس طرح یقین دلاؤں کہ میرا پختہ عقیدہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور یہ کام نہیں کرسکتا۔ مجھ پر کرم فرمائیں آپ کو اللہ کا واسطہ یہ فرما دیجیے کہ اولاد کی تعداد کے بارے میں قرآن اور حدیث میں کیا بیان کیا گیا ہے؟‘‘
’’اتنے بڑے انسانی پروجیکٹ کو پیدا کرنے کا سبب ہمارے دیہاتوں میں یہ ہے کہ ساس کیا کہے گی، سسر کیا کہے گا، نندیں کیا کہیں گی۔ شوہر کہتا ہے اگر اولاد نہ ہوئی تو دوست کہیں گے اس کے تو پلے ہی کچھ نہیں۔ لہٰذا وہ چڑھ جاتا ہے پھر حکیموں کے ہتھے۔سارے ملک کی دیواروں پر لکھا ہے شباب آور گولیاں لگتا ہے پورا پاکستا ن ہی بیمار ہے‘‘۔
’’مولوی صاحب میں لعنت بھیجتا ہوں شباب آور گولیوں پر۔ میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں، خدا کے لیے یہ بتا دیجیے کہ حکومت مغرب کی تقلید میں کم بچوں پر زور دے رہی ہے وہ جائز ہے کہ ناجائز‘‘۔
’’بھئی اصل مسئلہ علم کا ہے‘‘۔
’’مولوی صاحب جو بچوں کو پیدائش سے پہلے قتل کرنے کا علم رکھتے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے حکم کی صریح خلاف ورزی کررہے ہیں وہ تو اپنے علم کی خوب اشاعت کررہے ہیں، تقریبات، سیمینارز منعقد کررہے ہیں لیکن آپ کے پاس اللہ کی وحی کا جو علم ہے اسے بتانے کے بجائے آپ کچھ اور بیان کررہے ہیں‘‘۔
’’ارے بھئی آپ کہاں جارہے ہیں بیٹھیے نا‘‘۔
’’جناب آپ کی باتوں میں بیان کی خوبیاں بھی ہیں اور تبلیغ کا آپ کا مخصوص مزاج بھی نمایاں ہے لیکن جو سوالات زندگی چھین رہے ہیں، عصر حاضرکے ان سوالوں کا جواب موجود نہیں۔ آپ کی فصاحت جیت گئی ہے لیکن جواب کے متلاشی سوال ہار گئے ہیں۔ سوالات کے جواب سے بے وجہ چشم پوشی اور جان بوجھ کر پہلو تہی۔ بعض تقریریں بھی ایسی ہوتی ہیں جو پرواز میں کوتاہی کا سبب بن جاتی ہیں۔ نبی کریم ؐ کی امت کی کثرت کی آرزو کو ویران کرنے، افلاس اور تنگی کی وجہ سے بچوں کو قتل کرنے سے منع کرنے کے قرآن کے حکم اور زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورتوں سے شادی کرنے کی عالی مرتبتؐ کی نصیحت کا گزر نہیں۔ دو ٹوک لہجے میں حق کو بیان کرنے ہی سے معاشرے زندہ رہتے ہیں، ان کے وجود کو توانائی اہل شہادت اور اہل احسان میسر آتے ہیں۔ اسلام اور کفر، حق وباطل کی جنگ ہر وقت اور ہر جنگ جاری ہے۔ اس جنگ میں اللہ کے احکامات کے مقابل کھڑے ہونے والوں کے سامنے دوٹوک حق بیان کرنے، مصلحتوں کو بالائے طاق رکھنے، مشکیں کسوانے اور پیٹھ پر کوڑے کھانے والوں کی ضرورت ہے مصلحت بیں واعظوں کی نہیں‘‘۔