مسلم اقلیتوں کے دشمن امریکا کی شرانگیزی

174

امریکا کی جانب سے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی اور مختلف بہانوں سے وطن عزیز کا روشن چہرہ غبار آلود کرنے کی کوششیں کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں کئی مواقع پر امریکی حکومت پاکستان پر انسانی حقوق کی پامالیوں سے لے کر آزادیاں سلب کرنے تک کے الزامات عائد کرچکی ہے، تاہم اس بار ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کی مذہبی رواداری کو نشانہ بنانے کی بھونڈی کوشش کی گئی ہے۔ امریکی وزارت خارجہ نے پہلے ایک بیان میں کہا کہ 1998ء کے بین الاقوامی قوانین برائے مذہبی آزادی کے تحت پاکستان سمیت سعودی عرب، چین،ایران، شمالی کوریا، برما، اریٹیریا، سوڈان ، تاجکستان اور ترکمانستان کو بلیک لسٹ کردیا گیا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی اس فہرست میں وہ ممالک شامل ہیں، جہاں مذہبی آزادی اور اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔ امریکا نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان کی اس تناظر میں نگرانی کی جارہی تھی۔ تاہم پاکستان کے شدید ردعمل نے امریکا کو گھٹنے ٹیکنے اور اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کردیا۔پاکستانی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں واضح کیا کہ امریکی فیصلہ یکطرفہ اور سیاسی بنیادوں پر کیا گیا ہے۔ یعنی اس کا مذہب اور اقلیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ بیان میں واضح کیا گیا کہ پاکستان ایک کثیر مذہبی اور کثیر جہتی معاشرہ ہے، جہاں مختلف عقائد اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ مل جل کر رہتے ہیں۔ وزارت خارجہ نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان کو اس موضوع پر کسی ملک کی مشاورت کی ضرورت نہیں کہ اقلیتوں کا تحفظ کس طرح کیا جاتا ہے۔ پاکستان نے امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاجی مراسلہ بھی تھمایا۔ جب کہ انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے اس حوالے سے واشنگٹن کو خوب آئینہ بھی دکھایا۔ اس شدید ردعمل پر امریکی وزارت خارجہ کو ایک بار پھر بیان دینا پڑا کہ امریکا نے پاکستان کو مذہبی پابندیوں سے متعلق تشویش کی فہرست سے استثنا دے دیا ہے اور ایسا ’اہم قومی مفاد کے تحت کیا گیا‘ ہے۔ یہ بیان خود اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکا کو کہیں بھی مذہبی آزادیوں سے متعلق کوئی تشویش نہیں، بلکہ واشنگٹن اس ضمن میں اپنے قول و فعل سے جس کسی کو بھی نشانہ بناتا ہے، اس کے پیچھے اس کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ نیز یہ بیان پاکستان کے اس موقف کی بھی توثیق ہے کہ ’امریکی فیصلہ سیاسی بنیادوں پر کیا گیا‘۔ اس سارے قضیے کے پیچھے درحقیقت امریکا کی جانب سے پاکستان پر دباؤ بڑھانے اور فاصلے گہرے کرنے کی مسلسل کوشش ہے۔ امریکا کو افغان جنگ کے خاتمے اور وہاں سے اپنی ناک بچاکر نکلنے کی فکر دامن گیر ہے، جس میں اسے پاکستان کے سوا کوئی دستگیر نظر نہیں آتا۔ تاہم پاکستان اس مسئلے میں اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے امریکی مطالبات مسترد کرچکا ہے۔ دوسری جانب افغان طالبان نے امریکی کٹھ پتلی اشرف غنی حکومت کی عدم موجودگی کی شرط کے ساتھ روس میں مذاکرات کیے ہیں۔ یہ پیش رفت بھی امریکا کے لیے جگ ہنسائی کا باعث بنی۔ دوسری جانب کچھ عرصہ قبل پاکستان نے یہاں سرگرم 18غیر ملکی این جی اوز کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ پاکستان کا موقف ہے کہ یہ این جی اوز انسانی حقوق کے تحفظ کی آڑ میں وطن عزیز کے خلاف جاسوسی اور خاص پر بلیک واٹر کی معاونت میں ملوث ہیں۔ اب امریکا کی جانب سے مذہبی پابندیوں کی بلیک لسٹ میں شامل ممالک پر نظر ڈالیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اکثر وہی ممالک شامل ہیں، جو یا تو اپنے ہاں این جی اوز کو کام کرنے سے روکتے ہیں یا انہوں نے ذرائع ابلاغ کو پابند کیا ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکا کو ان این جی اوز کو پاکستان بدر کرنے پر سخت غصہ ہے، بلکہ درحقیقت وطن عزیز سے اپنا بڑا تخریبی نیٹ ورک ختم ہونے پر تشویش لاحق ہوگئی ہے۔ مذہبی آزادیوں اور دنیا بھر میں ان کے تحفظ سے متعلق خود امریکا کا اپنا ریکارڈ کچھ صاف نہیں۔ سب سے پہلے دنیا کے قدیم اور حساس ترین مسئلے ’قضیہ فلسطین‘ کو ہی لے لیا جائے، جو عربوں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے نزدیک دینی اہمیت کا حامل ہے۔ امریکا نے گزشتہ برس مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا، جو فلسطینیوں اور مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر شب خون سے کم نہیں ہے۔ بیت المقدس پر اسرائیل نے 1967ء کی جنگ کے دوران قبضہ کیا۔ عالمی برادری اسے مجوزہ آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کرتی ہے، اور دنیا بھر کے مسلمان اسے اپنا تیسرا مقدس ترین مقام مانتے ہیں۔ اس کے باوجود امریکا یہ شہر اسرائیل جیسے نسل پرست ملک کو دینے کی کوشش کررہا ہے، جس کا ماضی اور حال مذہبی بنیادوں پر قتل عام اور مذہبی آزادیاں سلب کرنے کے حوالے سے سیاہ ترین ہے۔ اسی طرح امریکا کا دیرینہ اتحادی بھارت پورے ملک اور خصوصاً مقبوضہ جموں و کشمیر میں 7 دہائیوں سے انسانی اور مذہبی حقوق کی سنگین و کھلی پامالیاں کررہا ہے، تاہم امریکی حکومت اس حوالے سے ایک لفظ کہنے کو تیار نہیں۔ کچھ یہی حال شام کا ہے، جہاں کے لاکھوں عوام ریاستی جبر کی چکی میں پس رہے ہیں اور امریکا شامی اپوزیشن کی مدد کرنے کے بجائے شمالی شام میں کرد ملیشیاؤں کو نواز رہا ہے، تاکہ وہاں اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کرسکے۔ چین کے معاملے میں بھی یہ بات صرف بلیک لسٹ تک نہیں رہنی چاہیے۔ وہاں بھی مسلمانوں پر بدترین غیر انسانی مظالم ہورہے ہیں۔ان حالات و واقعات اور ان کے حوالے سے امریکی بے رخی دیکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ مذہبی آزادیوں کی فراہمی، تحفظ اور دنیا بھر میں اس حوالے سے آواز بلند کرنے کے حوالے سے پاکستان کا ماضی اور حال دونوں درخشاں ہیں، ضرورت ہے تو امریکا کو ہے کہ وہ اس ضمن میں اپنا قبلہ درست کرے۔