ترکی کے ماہرین امراض جگر اور سرجنز نے پاکستانی ڈاکٹروں کو جگر کی پیوند کاری، جگر کے امراض کے علاج اور پاکستان سے ہیپا ٹائٹس بی اور سی کے خاتمے میں مدد کی پیش کش کردی

187

کراچی (اسٹاف رپورٹر) ترکی کے ماہرین امراض جگر اور سرجنز نے پاکستانی ڈاکٹروں کو جگر کی پیوند کاری، جگر کے امراض کے علاج اور پاکستان سے ہیپا ٹائٹس بی اور سی کے خاتمے میں مدد کی پیش کش کی ہے۔ ترک ماہرین کا کہنا ہے کہ ترکی میں اس وقت 38 اسپتال جگر کی کام یابی سے پیوند کاری کر رہے ہیں جہاں دنیا بھر سے مریض اپنے علاج کے لیے آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ترکی میں صحت کے شعبے میں محدود پیمانے پر تعاون جاری ہے جسے بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ 2030ءتک پاکستان سے ہیپا ٹائٹس بی اور سی کا خاتمہ ممکن ہو۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان سوسائٹی فار دی اسٹڈی آف لیور ڈیزز کے زیر اہتمام ہونے والی بارہویں3 روزہ عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس سے ترکی کے علاوہ امریکا، برطانیہ، جاپان اور جنوب ایشیائی ممالک کے ماہرین کے ساتھ ساتھ پاکستانی ڈاکٹروں نے بھی شرکت کی اور اپنے مقالات پیش کیے۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترک ٹرانسپلانٹ سرجن پروفیسر کامل یلشن کا کہنا تھا کہ وہ نہ صرف پاکستان آ کر بلکہ پاکستانی سرجنز کو اپنے میڈیکل سینٹرز میں بلا کر ٹرانسپلانٹ کی تربیت دینے کو تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکی میں38 اسپتال لیور ٹرانسپلانٹ کر رہے ہیں جہاں دنیا کے ایک تہائی جگر کی پیوند کاری کے آپریشن کیے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف وہ بلکہ دیگر ترک ماہرین بھی پاکستانی ڈاکٹروں کو تربیت دینے کے لیے پاکستان آنے کو تیار ہیں۔ ورلڈ گیسٹرو انٹرالوجی آرگنائزیشن کے صدر شی ہان یردے دن کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم پوری دنیا بشمول پاکستان سے ہیپا ٹائٹس بی اور سی کے خاتمے کی کوششیں کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترک ماہرین پاکستان کو ہیپا ٹائٹس بی اور سی کے مریضوں کی اسکریننگ، تشخیص اور علاج کے لیے اپنی خدمات دینے کو تیار ہیں۔ ورلڈ گیسٹرو انٹرالوجی آرگنائزیشن ٹریننگ سینٹر کراچی کے ڈائریکٹر پروفیسر وسیم جعفری کا کہنا تھا کہ ہیپا ٹائٹس بی اور سی کی انتہائی تشویش ناک صورت حال کے باوجود اس مرض کو پاکستان سے ختم کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے وفاقی، صوبائی حکومتوں، پرائیویٹ سیکٹر اور این جی اوز کو مشترکہ کوششیں کرنی ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے بڑی حد تک وسائل کی موجود گی کے باوجود اس مرض کو ختم کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں، جس کی وجہ سے یہ اب وبائی صورت اختیار کر چکا ہے۔ پاکستان سوسائٹی فار دی اسٹڈی آف لیور ڈیزیز کے نائب صدر پروفیسر ضیغم عباس کا کہنا تھا کہ موجودہ صورت حال میں پاکستان سے ہیپا ٹائٹس بی اور سی کا خاتمہ خواب لگتا ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر اس مرض پر قابو پانے کی سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں تو پاکستان پر پولیو کی طرح سفری پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ آغا خان یونیورسٹی کے ماہر امراض جگر پروفیسر سعید حامد کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ کمیونٹی کے تعاون سے کراچی کے مضافات میں ہیپا ٹائٹس بی اور سی کی تشخیص کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ملیر کے مضافاتی علاقوں میں اس مرض کی شرح چوبیس فی صد تک پہنچ چکی ہے لیکن بدقسمتی سے اکثریت کو اپنی بیماری کا علم نہیں بلکہ وہ اس کے علاج کرانے میں بھی دل چسپی نہیں رکھتے۔ کانفرنس مزید دو روز مقامی ہوٹل میں جاری رہے گی جس کے اختتام پر ہیپا ٹائٹس بی، سی کے خاتمے، جگر کے کینسر اور دیگر بیماریوں کے علاج اور جگر کی پیوند کاری کے حوالے سے سفارشات پیش کی جائیں گی۔