قبائلی اضلاع کی صوبائی اسمبلی میں نمائندگی

81

اخباری اطلاعا ت کے مطا بق خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں انتظامی امورکو بہتر انداز میں نمٹانے اور اگلے سال جولائی میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کرانے کے لیے گورنرخیبر پختون خوا اور وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا نے مشاورت کے بعد حکمت عملی تیار کرلی ہے جس پر جلد عمل درآمد شروع کیا جائے گا اس سلسلے میں گزشتہ روز گورنر ہاؤس پشاور میں ایک مشاورتی اجلاس منعقد ہوا جس میں گورنر خیبر پختون خوا شاہ فرمان، وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان، صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی اور صوبائی وزیر جنگلات اشتیاق ارمڑ نے شرکت کی۔ اجلاس میں صوبے میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کے انتظامی امور اور قبائلی اضلاع میں اگلے سال جولائی میں صوبائی اسمبلی کے الیکشن، بلدیاتی انتخابات کے لیے حدبندیوں سمیت صوبے کے ماتحت ہونے والے قبائلی اضلاع کے سرکاری محکموں کے معاملات کا جائزہ لیا گیا۔
دریں اثناء قبائلی علاقوں کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی کے حوالے سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وفاقی حکومت نے سابقہ تمام 6فرنٹیئر ریجنوں (ایف آراز) پر مشتمل ایک صوبائی حلقہ ترتیب دینے کے لیے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ الیکشن کمیشن ذرائع کے مطابق الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق قومی اسمبلی کا حلقہ ایک سے زاید اضلاع پر محیط ہو سکتا ہے تاہم صوبائی اسمبلی کا حلقہ ایک ہی ضلع میں ہونا لازمی ہے۔ قبائلی علاقوں کے صوبے میں انضمام کے بعد 6فرنٹیئر ریجن پشاور، کوہاٹ، لکی مروت، ٹانک، ڈی آئی خان اور بنوں کو ان کے ساتھ متصل اضلاع میں ضم کردیا گیا ہے تاہم قبائلی اضلاع میں صوبائی انتخابات کے دوران ان علاقوں کے عوام کے ووٹ سے محروم رہ جانے کا خطرہ ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس تکنیکی رکاوٹ کو ختم کرنے کے لیے الیکشن ایکٹ 2017 میں وفاقی حکومت نے ترمیم لانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد صوبائی اسمبلی کا حلقہ بھی ایک سے زاید اضلاع پر محیط ہو سکے گا اور اس طرح 6اضلاع کے ساتھ متصل سابقہ فرنٹیئر ریجن کو بھی صوبائی اسمبلی میں نمائندگی مل جائے گی۔ الیکشن کمیشن ذرائع کے مطابق ترمیم کا انتظار کیے بغیر ہی ایف آرز میں حدبندی کا عمل شروع کر دیا گیا ہے تاکہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں مزید تاخیر نہ ہو۔ 2017 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق تمام سابقہ فرنٹیئر ریجنوں کی آبادی 3لاکھ 57ہزار 687نفوس پر مشتمل ہے اور فارمولے کے تحت ان تمام مقامات سے ایک رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کا امکان ہے۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ مذکورہ علاقوں پر مشتمل قومی اسمبلی کا بھی ایک ہی حلقہ ہے اس طرح ان ہی نفوس اور رقبے پر مشتمل صوبائی اسمبلی کا ایک یہ نیا حلقہ وجود میں آنے کے بعد یہ صوبے کا چترال اور ٹانک کے بعد تیسرا ایسا صوبائی حلقہ انتخاب ہوگا جو بیک وقت قومی اور صوبائی حلقوں کی ایک جتنی آبادی پر مشتمل ہوگا۔
قبائلی اضلاع کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی کا اعلان ویسے تو قبائلی علاقوں کے خیبر پختو نخوا میں انضمام کے فیصلے کے ساتھ ہی ہو گیا تھا اور اس سلسلے میں انضمام حامی تمام قوتوں کی خواہش اور مطالبہ تھا کہ قبائل کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی 2018 کے عام انتخابات کے موقع پر ہی دی جانی چاہیے لیکن چوں کہ اس ضمن میں ضروری ہوم ورک نامکمل تھا اور خاص کر ابھی تک حلقہ بندیوں کا تعین نہیں ہو سکا تھا اس لیے افراتفری میں ایسے کسی بھی فیصلے کے برے نتائج سے بچنے کے لیے الیکشن کمیشن اور متعلقہ اداروں نے قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات عام انتخابات کے ساتھ کرانے کے بجائے اگلے سال جولائی میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تھا البتہ اسی تسلسل میں یہ بھی طے ہوا تھا کہ صوبائی اسمبلیوں پر انتخابات بلدیاتی انتخابات کے بعد ہوں گے جن کے لیے اس سال اکتوبر کا مہینہ طے کیا گیا تھا لیکن دو ماہ گزرنے کے باوجود بھی اس جانب کوئی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آتی، جس کو دیکھتے ہوئے قبائل میں صوبائی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے پائے جانے والے شکوک و شبہات کو ہر کوئی محسوس کر سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر حکومت قبائلی اضلاع کو مین اسٹریم میں لانے میں واقعی سنجیدہ ہے تو اسے جہاں انضما م کے عمل کو مزید تیز کرنا ہوگا وہاں حلقہ بندیوں کا کام ترجیحی بنیادوں پر مکمل کر کے پہلے مرحلے میں صوبائی انتخابات جبکہ دوسرے مرحلے میں بلدیاتی انتخابات کے لیے درکار وہ تمام ضروری اقدامات اٹھانے ہوں گے جن کا اس ضمن میں اٹھایا جانا ضروری ہے۔ اسی طرح حلقہ بندیوں میں ایف آرز کا الگ غیر فطری صوبائی حلقہ بنانے کے بجائے متعلقہ ایف آرز کو قریبی قبائلی اضلاع کے صوبائی حلقوں میں شامل کرنا چاہیے جس سے نہ صرف وسائل کی بچت ہوگی بلکہ اس سے پشاور سے ٹانک تک ایف آرز پر مشتمل ایک غیر فطری صوبائی حلقے کے عوام بھی اپنے منتخب نمائندوں تک رسائی کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانے سے بچ جائیں گے۔