یہ ہیں ہمارے ذرائع ابلاغ

353

دنیا میں ایسے ملک کا تصور محال ہے جس کے ذرائع ابلاغ کا کوئی قومی ایجنڈا نہ ہو۔ ذرائع ابلاغ کا قومی ایجنڈا کوئی مجّردچیز نہیں۔ ذرائع ابلاغ کے قومی ایجنڈے کا تعلق قوم کے عقاید، تہذیب اور تاریخ سے ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ذرائع ابلاغ کا ہمارے مذہب، تہذیب اور تاریخ سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اقبال نے کہا ہے
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں
مگر ہمارے ذرائع ابلاغ کا بیشتر مواد مذہبی علم کی نفی کرتا نظر آتا ہے۔ ہم نے 1980ء کے اواخر میں پی ٹی وی کے مذہبی پروگراموں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ پی ٹی وی کے مذہبی پروگرام پی ٹی وی کے عام پروگراموں کی زکوٰۃ کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن اب جو ذرائع ابلاغ ہمارے سامنے ہیں وہ اپنے صفحات اور وقت کا ڈھائی فی صد بھی مذہب کے لیے مختص کرنے پر آمادہ نہیں۔ البتہ رمضان میں ٹیلی وژن کے چینلوں کو اسلام بہت یاد آتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ٹیلی ویژن چینل رمضان کی تکریم نہیں کرتے رمضان کو ’’فروخت‘‘ کرتے ہیں۔ 12 ربیع الاوّل کے روز بھی یہی ہوتا ہے۔ ہر چینل کی اسکرین پر 12 ربیع الاوّل ایک پروڈکٹ بنا نظر آتا ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ ذہنیت کا بنیادی پہلو ہے اس کے لیے ہر چیز قابل فروخت ہے۔ خدا اور مذہب بھی۔ لیکن یہ مذہب اور ذرائع ابلاغ کے تعلق کا محض ایک پہلو ہے۔
کارل مارکس نے کہا تھا فلسفے نے اب تک دنیا کی تعبیر کی ہے مگر مسئلہ دنیا کی تعبیر کا نہیں دنیا کو بدلنے کا ہے۔ کارل مارکس کے لیے دنیا کو بدلنے کا بنیادی آلہ سوشلزم تھا ہمارے لیے اسلام ہے مگر ہمارے ذرائع ابلاغ بھول کر بھی اس بات کا تذکرہ نہیں کرتے کہ مذہب، صرف عقیدہ ،صرف عبادت، صرف اخلاقیات اور صرف جذبہ نہیں ہے بلکہ مذہب زندگی اور دنیا کو بدلنے والی واحد قوت ہے۔ جو مذہب دنیا کو نہیں بدلتا وہ یا تو خود جھوٹا ہے یا اس کے پیروکار جھوٹے ہیں۔ اور بلاشبہ اس حوالے سے اسلام کے کروڑوں پیروکار اور ذرائع ابلاغ جھوٹے ہیں۔ کارل مارکس مذہب کو عوام کی افیون کہا کرتا تھا اور وہ غلط کہتا تھا دنیا کا ہر سچا مذہب زندگی اور دنیا کو بدلنے آیا تھا عوام کی افیون بننے نہیں۔ مگر بدقسمتی سے انسانوں نے خود مذہب کو نشے کی طرح استعمال کرنا شروع کردیا۔ بدقسمتی سے ہمارے ذرائع ابلاغ بھی یہی کررہے ہیں۔ وہ اوّل تو مذہب سے لاتعلق ہیں یا پھر وہ مذہب کو شعور بیدار کرنے والے آلے کے بجائے قوم کو سلانے والے آلے کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ اقبال نے کہا ہے۔
مست رکھو ذکر و فکر و صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کردو مزاج خانقاہی میں اسے
ہمارے ذرائع ابلاغ آئے دن اس بات کا ماتم کرتے رہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ان کی آزادی اظہار پر قدغن لگارہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ایسا کررہی ہے تو بہت بُرا کررہی ہے اور اس حوالے سے اس کی مذمت کی جانی چاہیے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ خود اپنے لیے اسٹیبلشمنٹ بنے ہوئے ہیں۔ اس کا حالیہ اور ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے ملک ریاض کے بحریہ ٹاؤن کی زمینوں کو ناجائز یا Illegal قرار دیا تو عدالت عظمیٰ کی خبر صرف روزنامہ جسارت اور روزنامہ ڈان میں شائع ہوئی۔ ملک کے کثیر الاشاعت اخباروں روزنامہ جنگ، روزنامہ دنیا، روزنامہ ایکسپریس اور ڈیلی دی نیوز میں عدالت عظمیٰ سے برآمد ہونے والی خبر سرے سے شائع ہی نہیں ہوئی۔ اس حوالے سے کئی نکات اہمیت کے حامل ہیں۔ اداریہ اخبار کی رائے ہوتا ہے اور اخبار یہ فیصلہ کرنے میں آزاد ہوتا ہے کہ کس خبر یا واقعے پر اداریہ لکھے اور کس پر نہ لکھے۔ ملک کے بڑے اخبارات اگر ملک ریاض کی جعل سازی پر اداریہ نہ لکھتے تو یہ کوئی بہت بڑی بات نہ ہوتی مگر ’’خبر‘‘ کو روکنا اخبار کے تصور کی نفی کرنا ہے اور ملک کے بڑے اخبارات نے ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن کے حوالے سے خبر کو روک کر اپنے اپنے اخبارات اور پیشے کی نفی کی۔ خبر کا قصہ بھی یہ ہے کہ ہر اخبار خبر کو اپنے فہم کے مطابق اہمیت دینے میں آزاد ہے۔ چناں چہ ممکن ہے کہ ایک خبر کسی اخبار میں میں چھ کالم کی سرخی کے ساتھ شائع ہو۔ کسی اور اخبار میں یہی خبر تین کالم کی سرخی کے ساتھ طلوع ہو اور کسی اخبار میں یہی خبر صرف ایک کالم کی سرخی کے ساتھ رپورٹ ہو، لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ خبر سرے سے رپورٹ ہی نہ ہو۔ بدقسمتی سے ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن سے متعلق خبر بڑے بڑے اخبارات میں سرے سے شائع ہی نہیں ہوئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ بڑے بڑے میڈیا ٹائی کونز اور بڑے بڑے اخبارات کے لیے آزادی اظہار محض ڈھکوسلے کے سوا کچھ نہیں۔ اس معاملے سے دوسری حقیقت یہ عیاں ہوئی کہ بڑے بڑے اخباری گروپس کے لیے ملک ریاض اسٹیبلشمنٹ کے مساوی طاقت ہیں۔ بدقسمتی سے یہ ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ ذرائع ابلاغ نے خود ’’ایجاد‘‘ کر رکھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو ذرائع ابلاغ خود اسٹیبلشمنٹ ایجاد کرنے میں لگے ہوئے ہیں انہیں خود کو اخبار یا چینل کہنے اور آزادی صحافت اور آزادی اظہار کا راگ الاپنے کا ’’اخلاقی حق‘‘ کہاں سے حاصل ہوا؟ ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن کی خبر کو ’’Kill‘‘ کرنے کے قصے سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوئی کہ اگر ہمارے ذرائع ابلاغ ملک ریاض اور اُن کے بحریہ ٹاؤن کے بارے میں خبر شائع نہیں کرسکتے تو یہ بڑی بڑی کثیر القومی کمپنیوں عرف ملٹی نیشنلز کے خلاف خبر کیا شائع کریں گے؟۔
ایک دن ایک صاحب پوچھنے لگے کہ آپ روزانہ کتنے اخبارات پڑھتے ہیں۔ ہم نے عرض کیا 6 اخبار۔ کہنے لگے اور آپ کے پسندیدہ کالم نگار کون کون سے ہیں۔ ہم نے عرض کیا۔ ایک بھی نہیں۔ پوچھنے لگے کہ پھر آپ ان کو پڑھتے ہی کیوں ہیں؟ ہم نے کہا اس لیے تا کہ معلوم ہوسکے کہ صحافت میں موجود اسٹیبلشمنٹ کے ترجمان کیا فرمارہے ہیں؟۔ صحافت کے میدان میں دندنانے والے نواز لیگی کیا لکھ رہے ہیں؟ صحافت میں بروئے کار آنے والے سیکولر لوگ کیا گُل کھلارہے ہیں؟۔ صحافت کے شعبے میں چہل قدمی کرنے والے امریکا اور یورپ کے آلہ کار کیا کارنامے انجام دے رہے ہیں؟ بلاشبہ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی یا کسی سیاست رہنما کو پسند یا نا پسند کرنا کوئی خاص بات نہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ ہماری پسند اور ناپسند کے پیمانوں کو ہمارے مذہب، ہماری تہذیب، ہماری تاریخ، اخلاق اور علم سے مہیا ہونا چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہورہا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ سہیل وڑائچ صاحب نے حال ہی میں روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں میاں نواز شریف کی ’’خاموشی‘‘ کی سات آٹھ وجوہ بیان کی ہیں۔ یعنی میاں نواز شریف کی خاموشی مونا لیزا کی مسکراہٹ کی طرح راز بنادی گئی، حالاں کہ خود سہیل وڑائچ کو معلوم ہے کہ میاں صاحب کی خاموشی کی صرف ایک وجہ ہے۔ ڈیل اور ڈھیل۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سہیل وڑائچ اگر یہ مان لیں گے تو ان کے ’’محبوب رہنما‘‘ کا قد چھوٹا ہو جائے گا۔ چناں چہ خواہ میاں نواز شریف کے حوالے سے سات آٹھ جھوٹ کیوں نہ بولنے پڑیں اصل بات نہیں کہنی۔ کیا یہی صحافت ہے؟ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ صحافت آزادی اظہار کا مطالبہ کرتی ہوئی اچھی لگتی ہے؟ اسٹیبلشمنٹ سہیل وڑائچ یا میاں نواز شریف کے کسی اور صحافتی پرستار کے کالم روکتی یا ایڈیٹ کرواتی ہے تو بہت بُرا کرتی ہے۔ اس سے اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کا نہیں کمزوری کا اظہار ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی علمی اہلیت اتنی بھی نہیں کہ وہ میاں نواز شریف کے بیانیے کا جواب دے سکے۔ حالاں کہ میاں نواز شریف کے بیانیے کی اوقات ہی کیا ہے۔ آدمی نیند کے عالم میں بھی اس بیانیے کا رد لکھ سکتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا معاملہ یہ تو ہے نہیں کہ وہ کسی بات کا جواب دے گی تو اس کا جواب شائع نہیں ہوگا۔ مگر جس کے پاس طاقت ہوتی ہے وہ لفظ کا سہارا لینے کو اپنی توہین سمجھتا ہے۔
ڈیلی ڈان کے ایک مستقل کالم نگار ہیں نیاز مرتضیٰ۔ موصوف برکلے یونیورسٹی کے سینئر فیلو ہیں اور Inspiring کے عنوان سے کوئی ’’Progressive‘‘ این جی او چلاتے ہیں۔ ان کا حال بھی ملاحظہ کرتے چلیے۔ انہوں نے 4 دسمبر 2018ء کے کالم میں فرمایا کہ مغرب کی ہر چیز کا خوف ایک طرح کی ذہنی بیماری ہے اور اس سے بیماری میں مبتلا لوگوں کا احساس کمتری ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن یہ مسئلہ تو مغرب اور اس کے آلہ کار سیکولر اور لبرل لوگوں کا بھی ہے۔ انہیں اسلام اور مسلمانوں کی ہرچیز سے خوف آتا ہے، مگر مزے کی بات یہ ہے کہ مغرب اور سیکولر اور لبرل لوگوں کے نزدیک اسلام سے متعلق یہ رویہ ’’شعور‘‘ اور ’’علم‘‘ کی علامت ہے، البتہ اگر یہی رویہ مسلمانوں میں مغرب کے حوالے سے پایا جائے تو پھر یہ ذہنی بیماری ہے، بے بنیاد خوف ہے اور احساس کمتری کا استعارہ ہے۔ کیا یہی جرنلزم ہے؟ ایک بات ایک جگہ خیر اور دوسری جگہ شر؟ ایک جگہ صحت، دوسری جگہ بیماری؟ ایک جگہ تاریک خیالی دوسری جگہ روشن خیالی؟۔
آپ آئے روز اخبارات میں پڑھتے اور ٹی وی پر دیکھتے رہتے ہیں کہ ملک کے مختلف حصوں میں کھانے پینے کی مضر صحت اشیا کے خلاف مہم چلائی جاتی رہتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی صحت اہم ہے اور کسی کو ایسی اشیا فروخت کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی جو انسان کی صحت تباہ کردے۔ مگر کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ ہماری روح، ہمارے قلب، ہمارے ذہن، ہماری نفسیات اور ہمارے جذبات کو روزانہ ٹنوں کے حساب سے ایسی ابلاغی غذا کھلائے چلے جارہے ہیں جو ان کے روحانی، اخلاقی، تہذیبی اور علمی وجود کو ہلاک کیے دے رہی ہے۔ مگر اس ابلاغی سازش کے خلاف نہ ریاست حرکت میں آتی ہے نہ خود لوگ اس پر احتجاج کرتے ہیں۔