ہدایت سے قبل عمل

156

وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے اعتراف کیا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی ہدایت سے قبل ہی روپے کی قدر کم اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ کردیا۔ اس اعتراف نے وزیراعظم کے ڈالر مہنگا ہونے کے فیصلے سے لاعلمی کی قلعی بھی کھول دی۔ اگر وزیراعظم کو اس فیصلے کا علم نہیں تھا اور میڈیا سے پتا چلا تو اب وزیراعظم کو وزیر خزانہ سے باز پرس کرنی چاہیے کہ ایسی بات کیوں کہہ دی جس سے وزیراعظم کی ساکھ خراب ہوتی ہو۔ وزیر خزانہ نے بہر حال یہی بات بتائی ہے کہ ہم نے تو اچھے بچوں کی طرح آئی ایم ایف کے اشاروں کو سمجھتے ہوئے وہی کیا جو ہمیں کرنے کا حکم دیا جانے والا تھا۔ اب اختلافات ہوگئے یا حکومت پر آئی ایم ایف کے حوالے سے سیاسی دباؤ آگیا تو فی الحال حکومت نے اس فیصلے کو موخر کردیا ہے لیکن حکومت کا راستہ وہی لگ رہا ہے جس جانب آئی ایم ایف لے جانا چاہتا ہے۔ انہوں نے بی بی سی کو انٹرویو دیا اس لیے اس میں قصداً امریکا کو پیغام دیا گیا کہ وہ چینی قرضوں کے بارے میں فکر مند نہ ہو کیونکہ وہ خود چین کا سب سے بڑا مقروض ہے۔ وزیر خزانہ نے امریکا کو تو اچھا پیغام دیا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ آئی ایم ایف کو بھی پیغام دیا ہے کہ ہم آپ کی ممکنہ ہدایات پر خود ہی عمل کررہے ہیں۔ اگلے مذاکرات کامیاب ہونے چاہئیں یعنی قرضوں کا اعلان۔ اب وزیر خزانہ اسے کامیابی سمجھیں یا قوم اسے مزید دباؤ، ہونے یہی جارہا ہے البتہ وزیراعظم کی پوزیشن بہت زیادہ خراب ہوئی ہے کہ اگر حکومت نے آئی ایم ایف کی ہدایت سے قبل ہی روپے کی قدر خود کم کی تھی تو پھر وزیراعظم کے علم میں ضرور ہوگا۔ وزیر خزانہ کے انٹرویو کے ساتھ ہی عالمی بینک کی ایک اور خبر ہے کہ پاکستان توانائی کے شعبے میں خامیوں پر قابو پاکر اقتصادی ترقی کرسکتا ہے۔ توانائی کے شعبے میں خامیوں پر قابو پانے سے کچھ بھی مراد ہو اصل کام یہی ہوگا جس کا اعتراف اور اعلان وزیر خزانہ کرچکے۔ یعنی قیمتوں میں اضافہ، اب عوام قرضے بھی ادا کریں اور ان اقدامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مہنگائی بھی بھگتیں۔ پاکستانی عوام کی ہمت کو سلام۔ گویا کوئی تبدیلی نہیں آئی۔آئی ایم ایف کے ہدایت نامے پر پہلے سے عمل کرنے والے ضرور آگئے ہیں۔