گیس بحران کچھ لے کر جائے گا

175

لگتا ہے حکومت متحرک ہوگئی ہے۔ عموماً اسے ایکٹو کہا جاتا ہے، وزیراعظم نے ملک بھر میں گیس بندش کا نوٹس لے لیا ہے اور تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی ہے۔ ساتھ ہی سوئی سدرن اور ناردرن کے ایم ڈیز کے خلاف کارروائی کا حکم دے کر 72 گھنٹے میں رپورٹ طلب کرلی ہے۔ ہنگامی اجلاس میں بتایاگیا کہ دونوں کمپنیوں نے طلب و رسد کے فرق اور اس کی معلومات چھپائیں۔ دوسری طرف وزیر پیٹرولیم غلام سرور خان نے کہاہے کہ گیس کی کوئی لوڈ شیڈنگ نہیں ہے۔ پریشر کم ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ بعض کمپریسر پلانٹس کی خرابی کو بھی پوشیدہ رکھا گیا۔ گیس بحران پر وزیراعظم کے نوٹس لینے کے درمیان وہی وقفہ ہے جس کے نتیجے میں تباہی ہوچکی ہوتی ہے۔ پورے ملک کی صنعتوں اور ٹرانسپورٹ کا پہیہ جام ہوگیا۔ سی این جی اسٹیشنوں کو گیس کی فراہمی نہ ہونے کے سبب عام ٹرانسپورٹ اور خصوصاً وہ بسیں جن کو گزشتہ برسوں میں سی این جی پر منتقل کرایا گیا تھا وہ سب بند ہوگئیں۔ جس کا نتیجہ عوام نے بھگتا۔ لوگوں کو دفاتر اور اسکول پہنچنے میں مشکل ہوئی۔ یہ مشکل ہنوز جاری ہے۔ پیٹرول پمپوں پر رش ہے اور لگتا ہے کہ یہ دباؤ دو ایک دن میں پیٹرول کی قلت پر منتج ہوگا۔ پھر نیا بحران لیکن یہ سب یوں ہی تو نہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنما اور بہی خواہ کہتے ہیں کہ حکومت کو ناکام کرنے کے لیے سازشیں کی جارہی ہیں۔ اس بات میں کچھ صداقت ہوسکتی ہے۔ لیکن حکومت تو اسی کوکہا جاتا ہے جو ایسی سازشوں پر بھی نظر رکھتی ہیں اور گیس کمپنیوں کے بارے میں جو کچھ کہاجارہاہے کہ انہوں نے معلومات چھپائیں ان چیزوں پر نظر رکھنا بھی حکومتوں ہی کا کام ہوتا ہے لہٰذابعد از خرابی یہ کہنا کہ ہم سے معلومات چھپائی گئیں، غلط ہے۔ حکومتوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ کس ادارے سے کیا معلومات دی جارہی ہیں اور کیا صحیح ہیں۔ اسے جاسوسی کہا جائے یا معلومات کے حصول کا متبادل انتظام لیکن حکومت اسے ضرور اختیار کرتی ہے۔ پھر گیس جیسا بنیادی اہمیت کا حامل شعبہ جس پر صنعتوں اور ٹرانسپورٹ کا انحصار ہو پورا ملک اس پر انحصار کر رہا ہو اچانک اس کی بندش ہوجائے۔ یہ مذاق تو نہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس حکومت کے آتے ہی ڈالر، امریکا سے تعلقات، آئی ایم ایف اور اب پورے ملک میں گیس کا بحران پیدا ہوا نہیں ہے بلکہ پیدا کیا گیا ہے۔ ان بحرانوں کے ذریعے کچھ وزرا کی کارکردگی خراب کرکے انہیں فارغ کرنے کا جواز پیدا کیا جارہاہے۔ اگر حکمران مضبوط ہو تو وہ کسی بھی وزیر کو فارغ کرنے اور نیا وزیر مقرر کرنے میں دیر نہیں لگاتا لیکن سات نشستوں کے فرق والی ٹکڑے ٹکڑے جوڑ کر بنائی گئی حکومت کو بہت مشکل ہوتی ہے۔اسے نکالا تو اس کا گروپ ناراض ہوگا۔ دوسرے کو ہٹا یا تو اس کا گروپ ناراض ہوگاگروپوں کا کوٹہ بھی ہوتا ہے کوٹے سے کم ملے تو ناراض، زیادہ ملے تو دوسرا گروپ ناراض۔ ایسی حکومت اتحادیوں کو منانے اور حکومت بچانے میں لگی رہتی ہے۔ حکومت پر معاشی پالیسیوں کے حوالے سے شدید دباؤ تھا اور لگ رہا تھا کہ وزیر خزانہ اسد عمر کی چھٹی ہونے والی ہے۔ اسی طرح وزیر پیٹرولیم غلام سرور کے بارے میں بھی یہی باتیں کی جارہی تھیں۔ میڈیا خصوصاًپرنٹ میڈیا سے تعلقات کی خرابی کی وجہ سے فواد چودھری بھی خصوصی نشانہ تھے۔ وزیراعظم نے سب کو پاس کردیا تھا۔ لیکن گیس بحران آن کھڑا ہوا۔ یہ سب بحران حکومت نے پیدا کیے ہیں یا ان سے نمٹنے میں اس سے کوتاہی ہوئی ہے۔ فیصلہ تو وقت کرے گا لیکن شدید دباؤ میں فیصلے کرنے سے کچھ بھی غلط ہوسکتا ہے اور اس بات کاقوی امکان تھا کہ دو تین وزیروں کو تبدیل کرکے عوام کے دباؤ کو کم کیا جائے۔اور اس حوالے سے پیش رفت شروع ہوگئی ہے۔ قلمدان ادھر ادھر ہوگئے۔ بہر حال پی ٹی آئی کی حکومت اتنی نئی بھی نہیں کہ اسے نیا کہاجائے۔ بیشتر لوگ کسی نہ کسی صورت حکومتوں کا حصہ رہے ہیں اور حکومت چلانے کے طریقوں اور حکومتی امور سے متعلق تمام معاملات سے واقف ہیں۔ لہٰذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ٹیم نئی ہے بلکہ معاملہ فہمی کی کمی ہے اور اس کو بہر حال حکومت کی نا اہلی اور نالائقی ہی کہا جاسکتا ہے۔ نوٹس لینا اور تحقیقات کا حکم دینا بھی روایتی معاملہ ہے اگر تحقیقاتی کمیٹی بنائی ہے تو وزیراعظم کو خود دونوں گیس کمپنیوں کے ایم ڈیز کے خلاف تحقیقات کا علیحدہ سے حکم نہیں دینا چاہیے تھا۔ بہر حال یہ سارا کھیل ہر حکومت میں ہوتا ہے کبھی کبھار خود بحران پیدا کرکے تبدیلیاں کی جاتی ہیں اور کبھی بحرانوں سے فائدہ اٹھاکر وزرا کو ادھر سے ادھر کیا جاتا ہے۔ ہر صورت میں عوام ہی پستے ہیں اور یہ سارا کام عوام کے نام پر ہوتا ہے۔