ناقابل شکست کی شکست

124

بھارت کی پانچ ریاستوں کے انتخابات میں بظاہر ناقابل شکست اور ناگزیر سمجھے جانے والے نریندر مودی کے اقتدار کی اُلٹی گنتی شروع ہوگئی۔ پانچ میں سے تین ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بھارتیا جنتاپارٹی کو کانگریس کے ہاتھوں شکست ہوئی تو میزورام اور تلنگانہ کی ریاستوں میں علاقائی جماعتوں نے اسے چاروں شانے چِت کر دیا۔ پانچ ریاستوں کے انتخابات میں آنے والے عام انتخابات کی دھندلی سی تصویر بنتی دیکھی جا سکتی ہے۔ اگلے برس مئی میں بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات ہونا ہیں اور ان انتخابات میں بی جے پی کا مقابلہ کانگریس سے ہوگا۔ کانگریس ایک بار پھر نہرو خاندان کی براہ راست قیادت ونگرانی میں آچکی ہے اور ’’پپو‘‘ کہلانے والے راہول گاندھی نریندر مودی کے طاقتور حریف کے طور پر اُبھرچکے ہیں۔ کانگریس علاقائی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرکے بھارتیا جنتا پارٹی کا مقابلہ کرنا چاہتی ہے۔ بھارت کے ایک سیاسی مبصر نے اسے عام انتخابات کا سیمی فائنل میچ قرار دیا گویا کہ اس کے نتائج سے عام انتخابات کے نتائج کا کچھ نہ کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
نریندر مودی کی سیاست کے سیاسی عروج میں نفرت کو مرکزی مقام حاصل رہا ہے۔ بالخصوص مسلمانوں کے بارے میں مودی کا دامن اس قدر داغ دار ہے گنگا اور جمنا کے پانی بھی اسے پاک پوتر نہیں بنا سکتے۔ گجرات کے مسلم کش فسادات میں بطور وزیر اعلیٰ کردار مودی کی سیاست اور امیج کو بھوت کی طرح چمٹ چکا ہے۔ مودی نے گجرات کے وزیر اعلیٰ سے بھارت کے وزیر اعظم تک کا سفر نفرت بھری راہوں پر چل طے کیا۔ وزیر اعظم بننے کے لیے انہوں نے ایودھیا میں بابری مسجد کی راکھ اور ملبے پر رام مندر کی تعمیر کے اشارے کنایے استعمال کیے مگر معاملہ چوں کہ عدالت میں تھا اس لیے وہ اس معاملے میں عملی پیش رفت نہ کر سکے۔ اس کے باوجود انہوں نے ہندوتوا سیاست کو مضبوط کرنے کے لیے مسلمانو ں کے خلاف نفرت انگیز مہمات پر یا تو خاموشی اختیار کی یا ان کی خاموش سرپرستی کی۔ گاؤ کشی کے خلاف انتہا پسند ہندوؤں کا ساری شہ اسی خاموشی سے ملتی رہی۔ اس مہم میں بے شمار مسلمانوں کو ہجوم کے ہاتھوں نہایت ظالمانہ انداز میں سفاکی کے ساتھ جانوں سے محروم ہونا پڑا۔ سفاک اور وحشی ہجوم کی طرف سے بزرگ اور جوان مسلم نوجوانوں سے جیے شری رام اور پاکستان اور اسلام مخالف کے نعرے زبردستی بلند کروائے جاتے رہے اور ان کی وڈیوز بنا کر اپ لوڈ کی جاتی رہیں۔ مودی نے یوپی جیسی اہم ریاست کی وزارت اعلیٰ کے لیے یوگی ادتیا ناتھ جیسے جوگی اور مسلمان دشمن کردار کو منتخب کیا۔ جس میں مسلمانوں کے لیے معنی خیز پیغام تھا اور یوگی نے اپنے ایجنڈے کی تکرار اور اصرار ریاستی انتخابات میں بھی جاری رکھا۔ یوگی ادتیا ناتھ نے یہ جملہ بہت حیرت کے ساتھ سنا گیا اگر تلنگانہ میں بی جے پی جیت گئی تو مسلمان راہنما اسدالدین اویسی کو نظام حیدر آباد کی طرح پاکستان بھاگنا پڑے گا۔ بظاہر تو یہ محض انتخابی نعرہ تھا مگر یہ انتہاپسند ہندو مائنڈ سیٹ کا عکاس تھا۔
مودی نے نہرو خاندان کو طبقہ اشرافیہ اور کانگریس کو طبقہ اشرافیہ اور خاندانی حکمرانی کی محافظ جماعت جبکہ خود کو ایک عام چائے والا ثابت کرکے بھارت کے عام طبقات کی توجہ حمایت حاصل کی تھی مگر کچھ عرصہ قبل ایک مالیاتی اسکینڈل نے دنیا کو بتادیا کہ ان کا حکمران اب چائے والا نہیں بلکہ ارب پتی بن چکا ہے۔ اس طرح مودی کے عام آدمی اور کلاس کا حصہ ہونے کا تصور کمزور پڑتا چلا گیا۔ مودی نے جس نفرت کی بنیاد پر اقتدار حاصل کیا اور نفرت ہی کی بنیاد پر اسے تسلسل دینے کی کوشش کی مگر عام آدمی کی ہر مشکل کا حل نفرت میں نہیں ہوتا۔ بھارت کی معروف خاتون صحافی برکھادت نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں ایک طویل مضمون میں مودی کی اس پالیسی پر یہ طنزیہ تبصرہ کیا ہے کہ: ’’بھوکا پیٹ بھجن نہیں ہوتھ گوپالا‘‘ یعنی خالی پیٹ بھجن نہیں گا سکتا۔ برکھادت کے مطابق مودی اپنے نفرت بھرے ہندوتوا ایجنڈے کو معاشی ایجنڈے میں تبدیل نہ کرسکے۔ برکھادت نے مودی کو ہندوستان کے گزشتہ تیس سال کا سب طاقتور وزیر اعظم لکھا ہے۔ مودی کی شکست میں نفرت انگیز ایجنڈے کے علاوہ ناکام معاشی پالیسیوں کا گہرا دخل ہے۔ مودی حکومت کو پہلا دھچکا 2016 میں اس وقت لگا تھا جب حکومت نے بڑے کرنسی نوٹوں پر پابندی عائد کی تھی۔ پانچ سو اور ہزار کے نوٹوں کی تبدیلی اور پابندی کے ساتھ ہی حکومت نے دوہزار کا نوٹ بھی متعارف کرایا۔ اس کی زد عام دور دراز دیہاتی عوام، چھوٹے کاروباری طبقے پر پڑی۔ چھوٹے طبقے کے لوگوں کو بڑے نوٹوں کی تبدیل کے لیے دربدر ہونا پڑا۔ بھارت کی معیشت اس فیصلے کے اثرات سے اب تک آزاد نہیں ہو سکی۔ چھوٹے کاروباری اور غریب طبقات مودی حکومت کے اس معاشی مذاق کو اب تک نہیں بھولے تھے۔ اس لیے انتخابات میں انہوں نے جم کر یہ قرض چکا دیا۔ اس طرح ووٹر کی توقعات اور خواہشات کو حقیر جاننے والوں کے لیے ایک سبق ہے کہ ووٹر کس قدر مجبور اور بے بس ہو کبھی نہ کبھی پلٹ کر حملہ کرکے اپنے ذلتوں اور رسوائیوں کا بدلہ لیتا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ مودی کا سیاسی زوال اب نوشتہ دیوار ہے مگر اس کے پاکستان کے ساتھ تعلقات اور مسئلہ کشمیر پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے۔
بھارتیا جنتا پارٹی کا ایجنڈا اسلام، پاکستان اور کشمیر دشمنی پر مبنی ہے جب کہ پاکستان کے حوالے سے کانگریس میٹھی چھری ہے۔ حقیقت میں دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ اس لیے ہمیں بھارت میں ہار جیت کے اس کھیل سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہیے۔ تاریخ میں کئی بار کانگریس ڈوبتی اُبھرتی رہی ہے مگر پاکستان اور بھارت کے مسائل کا پرنالہ اپنی جگہ ہے جو اس بات کا ثبوت ہے بھارت کی داخلی صورت گری پاک بھارت تعلقات پر کسی حد تک اثر انداز تو ہوتی ہے مگر اس سے کوئی جوہری تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔