ہندوستان کی سیاست پر مذہب کا مکمل غلبہ 

279

بلا شبہ اس وقت جب کہ ہندوستان ، کٹر ہندوتوا کے گھور اندھیرے میں بری طرح سے گھرا ہوا ہے، ملک کی سیکولرزم کی حامی ایک سو 33 سالہ پرانی کانگریس پارٹی نے بھی سیاست کے لیے مذہب کا سہارا لیا ہے اور بھارتیا جنتا پارٹی سے سبقت لے جانے کے لیے کوشاں ہے۔ پچھلے دنوں پانچ ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ ، تلنگانہ اور میرزورم میں اسمبلیوں کے انتخاب ہوئے تھے۔ کانگریس پارٹی کے صدر راہول گاندھی نے مدھیہ پردیش میں انتخابی مہم کا آغاز بڑے دھوم دھڑکے سے ریاست کے دو بڑے مندروں، کامناتھ مندر اور ماپتمبر پیٹھ کے مندر میں پوجا پاٹھ سے کیا اور مہم کے دوران دوسرے پانچ مندروں میں پوجا کی اور جبل پور میں نرمدا کے گوری گھاٹ پر آرتھی پوجا میں حصہ لیا۔
انتخابی سیاست کے لیے راہول گاندھی کا مندروں میں پوجا کا یہ پہلا سلسلہ نہیں تھا۔ گزشتہ سال گجرات میں ریاستی اسمبلی کے انتخاب کے دوران انہوں نے سومناتھ اور 24 دوسرے مندروں میں جا کر پوجاکی تھی ، لیکن نریندر مودی کی اس ریاست میں راہول گاندھی کی مندروں میں پوجا پاٹ کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ البتہ اس بار مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے ریاستی انتخابات میں کانگریس کو بھارتیا جنتا پارٹی کو ہرانے میں کامیابی حاصل رہی ہے۔ بلاشبہ ملک میں سیکولرزم کے حامیوں نے انتخابی سیاست کے لیے مذہب کا سہارا لینے پر ناخوشی ظاہر کی تھی لیکن ان کے نزدیک ہندوتوا کی جنونی پارٹی بھارتیا جنتا پارٹی کے سیاسی اثر کو روکنے کا یہی بہتر طریقہ ہے۔ راہول گاندھی نے انتخابی مہم کے دوران مندروں میں پوجا پر خاص طور پر زور اس وجہ سے بھی دیا کہ نریندر مودی ہندووں میں کانگریس کو بدنام کرنے کے لیے یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ کانگریس مسلمانوں کی حامی اور یرغمالی جماعت ہے۔ اس کی وجہ سے پچھلے انتخابات میں کانگریس کو سخت آزمائش کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب مندروں میں جا کر راہول گاندھی نے اس تاثر کو باطل ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
پچھلے سال گجرات کے ریاستی انتخاب کی مہم کے آغاز پر جب راہول گاندھی سومناتھ کے مندر گئے تھے تو مندر کے رجسٹر میں انہوں نے اپنے آپ کو غیر ہندو لکھا تھا جس پر زبردست ہنگامہ برپا ہوگیا تھا۔ کانگریس کے ترجمان نے شور مچایا کہ یہ کانگریس کے خلاف سازش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ راہول گاندھی ہندو ہیں اور مقدس دھاگا جنیو پہنتے ہیں۔ اس تنازع پر مجھے راہول کے دادا فیروز گاندھی یاد آگئے جن کا میں دلی میں ان دنوں پڑوسی تھا جب میں سن ساٹھ میں نامہ نگار کی حیثیت سے تعینات تھا۔ میں پارلیمنٹ کے قریب رائے سینا ہوسٹل میں رہتا تھا اور دو قدم کے فاصلے پر راجندر پرشاد روڈ پر اراکین پارلیمنٹ کے بنگلے میں فیروز گاندھی رہتے تھے۔ میرے دوست ممتاز صحافی اندر ملوہترا نے ان سے میرا تعارف کرایا تھا۔ پہلی ملاقات میں وہ مجھ سے گھل مل گئے۔ ایک تو پڑوسی کے ناتے سے دوسرے انہیں پاکستان کی سیاست اور حالات سے بے حد دلچسپی تھی اور اردو شاعری سے بے حد لگاؤ تھا۔ فیروز گاندھی روزآنہ شام کو اصرار کرکے مجھے اپنے بنگلے پر بلاتے تھے۔ اُن دنوں وہ گھر میں اکیلے رہتے تھے کیوں کہ ان کی اہلیہ اندرا گاندھی اپنے والد پنڈت نہرو کے ساتھ تین مورتی میں رہتی تھیں۔ اس علیحدگی کا دوش وہ نہرو کو دیتے تھے۔ فیروز گاندھی اس بات پر بھی سخت ناراض تھے کہ ان کے بیٹوں راجیو اور سنجے کو اندرا گاندھی مندروں میں لے جاتی ہیں اور اپنے سیاسی مقصد کے لیے انہیں ہندو بنا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پارسی ہیں اور ان کے بچے بھی پارسی ہیں لیکن اندرا گاندھی نے جیتے جی ان کے بیٹوں کو چھین لیا ہے اور ان کی شناخت مسخ کر دی ہے۔ وہ بڑے دکھ کے ساتھ کہتے کہ میں نے برسوں اندرا گاندھی کی والدہ کملا نہرو کی خدمت کی اور جب نہرو جیل میں تھے تو علیل کملا نہرو کی دیکھ بھال کی۔ وہ اشک بھری آنکھوں کے ساتھ کہتے کہ پنڈت نہرو نے میری خدمت کا یہ بدلہ دیا کہ میری بیوی کو مجھ سے چھین لیا اور بچوں کا مذہبی تشخص مٹا دیا۔ اب پارسی دادا کے پوتے راہول گاندھی نے سیاست کی خاطر پوری طرح سے ہندو دھرم کا چولا پہن لیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان میں سیاست پر مذہب کا غلبہ ہوتا جارہا ہے اور کانگریس کی روایتی سیکولرزم پسپا ہوتی نظر آتی ہے۔