کراچی سمیت سندھ بھر میں سی این جی اسٹیشن 2گھنٹےمیں کھولنے کا اعلان

275

کراچی میں گورنر سندھ عمران اسماعیل کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر پیٹرولیم نے کہا کہ وزیراعظم نے گیس بحران پر انتہائی فکرمندی کا اظہار کیا، مجھے مسئلے کے حل کے لیے کراچی بھیجا۔

انہوں نے کہا کہ آج رات 8 بجے سے سی این جی سیکٹر کو گیس بحال کر دی جائے گی،آج رات آٹھ بجے سی این جی اسٹیشن کھلوا کر میں نو بجے کی فلائٹ سے واپس چلا جاؤں گا۔

غلام سرور خان کا کہنا تھاکہ سندھ کی صنعتوں میں گیس کی کوئی لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی، ملک بھر میں گھریلو اور کمرشل صارفین کو گیس کی فراہمی اولین ترجیح ہے، اس کے بعد انڈسٹریل سیکٹر اور ایکسپورٹ سیکٹر ہے، ہم نے انڈسٹری کا پہیہ چلا دیا ہے، پنجاب کی صنعتوں کو چلانے کے لیے ایل این جی پر منتقل کیا، فیصل آباد میں سوسے زائد صنعتیں کھلوائیں۔

وزیر پیٹرولیم نے کہا کہ سوئی سدرن کےساتھ لوڈ مینجمنٹ پر نظر رکھیں گے، سی این جی سیکٹر کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے اور گیس کی بندش میں کمی کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ کیپٹو پاور پلانٹ کو سردیوں کے تین مہینوں میں پچاس فی صد گیس فراہم کریں گے،کوشش ہے کہ یہ کمی بھی نہ ہو، لیکن پیچھے سے گیس سپلائی کم ہے، جہاں سے پچاس ایم ایم سی ایف ڈی گیس آنی تھی وہاں سے چالیس ایم ایم سی ایف ڈی گیس آنا شروع ہو گئی ہے۔

غلام سرور خان کا کہنا تھاکہ وزیراعظم کی ہدایت پر مل بیٹھ کر مسئلے کو حل کیا اور وزیراعلیٰ سندھ سے بھی وزیراعظم کی ہی ہدایت پر میٹنگ کی، ہم سندھ کو بھی دیگر صوبوں کی طرح اہمیت دینا چاہتے ہیں۔

سندھ حکومت بھی کراچی کے مسائل حل کرے: غلام سرور

وفاقی وزیر نے اس موقع پر سندھ حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ کراچی کو پیچھے دیکھ رہا ہوں، یہاں کچرے کے ڈھیر ہیں، سندھ حکومت بھی کراچی کے مسائل حل کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ پانچ چھ بار حکومت لینے والوں نے شہر کو کیا دیا، انہیں بھی کراچی کے مسائل پر توجہ دینی چاہیے، شہر میں پانی کے مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔

واضح رہےکہ وزیراعظم عمران خان نے گیس بحران کا نوٹس لے کر سخت ایکشن لیا ہے اور سوئی سدرن و ناردرن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو تحلیل کردیا ہے جب کہ دونوں کمپنیوں کے مینیجنگ ڈائریکٹرز کے خلاف تحقیقات بھی شروع کردی گئی ہیں۔

سندھ بھر میں گیس کے بحران سے شہر قائد کے باسی بری طرح متاثر ہوئے ہیں، مسلسل ساتویں روز بھی سی این جی اسٹیشنز بند ہونے سے بڑی بسیں، منی بسیں اور رکشے بھی سڑکوں سے غائب ہیں جس کے باعث نہ صرف اس ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے والے پریشان ہیں بلکہ سی این جی اسٹیشنز پر یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ورکرز کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔