چین میں اناج پر مشتمل فصل سے چارے کی جانب منتقلی کا تجربہ

199

کراچی: جنوب مغربی چین کے صوبہ گانسو کا لِنسیا ہوئی خود مختار علاقہ روایتی خشک کھیتی باڑی کا علاقہ ہے۔ 80 فیصد آبادی کے دیہی علاقوں میں مقیم ہونے اور دو تہائی کھیتی باڑی بنجر و نیم بنجر علاقوں میں ہونے کی وجہ سے علاقے میں غربت کے خاتمے کی کوششوں کا انحصار خشک کھیتی باڑی کی ترقی پر ہے۔کھیتی باڑی کی جدید ٹیکنالوجیوں کی ترویج نے حالیہ چند سالوں میں خطے میں مکئی کی پیداوار میں اضافہ ممکن بنایا۔

مکئی کی کاشت کا علاقہ 1.37ملین مو (91,333 ہیکٹرز) تک جا پہنچا، جو بیج کی تخم پاشی کے علاقے کا 69.2 فیصد ہے۔ مکئی کی پیداوار 500,000 ٹن سے تجاوز کر چکی ہے، جو کْل اناج پیداوار کا 62.4 فیصد ہے۔ البتہ مکئی کیوسیع پیمانے پر کاشت نے کاشت کاری کی مؤثریت پر بوجھ ڈالا اور کاشت کاروں کی آمدنی کو نقصان پہنچایا اور نتیجہ بڑے پیمانے پر مکئی کی ڈالیوں کے ڈھیروں کی صورت میں نکلا، جو وسائل کا ضیاع بھی ہے اور دیہی ماحول کو بھی متاثر کرتا ہے۔

دوسری جانب لِنسیاگلہ بانی کی زبردست صنعت بھی رکھتا ہے جس کی وجہ سے جانوروں کی چارے کی بہت زیادہ طلب رہتی ہے۔ مکئی کی ڈالیوں کا غیر مؤثر استعمال اور اعلیٰ معیار کے چارے کی کمی نے خطے کے لیے ایک زبردست چیلنج پیدا کیا۔اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے لِنسیا نے کاشت کاری کے ڈھانچے کو بہتر بنا کر اور کسانوں کی آمدنی بڑھانے کے لیے 2017ء4 میں مکمل ذخیرہ کاری اور چارے کی نئی ٹیکنالوجی کو ترویج دے کر اناج کی فصلوں کی جگہ چارے کی کاشت کو فروغ دیا۔ لِنسیاچارے کے لیے 299,000 مو مکئی رکھتا ہے، جو 2.48 ملین ٹن بہترین خوراک پیدا کرنے کی گنجائش رکھتی ہے۔

لِنسیامیں ڈونگ سیانگ خود مختار کاؤنٹی کے ڑاؤجیا ٹاؤن شپ میں چلتے پھرتے کوئی بھی سڑک کنارے کھیتوں اور گاؤں میں کھلے مقامات پر سفید اور نیلے رنگ کی “بڑی گیندوں” کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوگا۔ دیہاتی ما چینگ منگ نے اپنی تمام 6 مو مکئی کو چارے میں تبدیل کیا۔ “یہ تازہ ترین بنایا گیا چارہ ہے۔ ہماری گائے بھینسیں اور بھیڑیں ایک ماہ بعد ان کا ‘مزا’ لے سکیں گی۔” انہوں نے کہاکہ یہ خمیر زدہ چارہ ہے جو مکئی کے بھٹوں اور ڈالیوں کو پیس کر بنایا جاتا ہے، جسے ایک سے تین سال تک کے لیے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ “اناج پر مشتمل فصل سے چارے کی جانب منتقلی”کا تجربہ چارے کے لیے مکئی کی کاشت کو فروغ دینے اور اناج کی فصلوں کو چارے میں تبدیل کرنے کے لیے ہے۔

“سوکھی گھاس کی غذائیت کی شرح پانچ فیصد سے بھی کم ہے اور ایک اور طریقے سے غذائیت کی شرح تقریباً 30 فیصد ہے، جبکہ پورے پودے کو چارے میں بدلنے پر غذائیت کی شرح 70 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔” پروفیسر ہی چْنگْئی، ڈپٹی ڈین گانسو اکیڈمی آف ایگریکلچرل سائنسز نے اس طریقے کی قدر کا نقشہ کھینچا۔ما 2017ء میں جب آغاز ہوا تھا تو اس تجربے پر پس و پیش کا شکار تھا: اگر تازہ ڈالیوں اور مکئی کو ایک ساتھ توڑا اور بند کیا جائے تو پھپھوند نہیں لگ جائے گی؟

انہوں نے مقامی حکومت اور زرعی تعاون نکندگان کی رہنمائی کے تحت صرف دو مو اناج پر کوشش کرنے کا فیصلہ کیا۔ غیر متوقع طور پر چارے کو پھپھوند نہ لگی، جبکہ ان کی پیداواری لاگت بھی بڑے پیمانے پر کم ہوئی۔ اس نے انہیں ترقی کے مواقع دیے۔ما نے کہا کہ ایک مو مکئی کو 4 ٹن چارے میں تیار کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے باقی تمام چار مو کاشت کو اس سال اس منصوبے پر لگا دیا ہے، جو 10 گائے بھینسوں اور 100 بھیڑوں کی خوراک کے لیے کافی ہے۔ اس نے چارے پر آنے والی بہت بڑی لاگت بچائی ہے کیونکہ انہیں اب چارہ خریدنے کی ضرورت ہی نہیں۔لاگت میں آنے والی کمی ہی اس تجربے کا واحد فائدہ نہیں۔ خمیری چارینے مویشیوں اور بھیڑوں کو موٹا تازہ کیا اور گوشت کے معیار کو بھی بہتر بنا رہا ہے۔

ما نے کہا کہ یہ اعلیٰ معیار کا چارہ ہے، کیونکہ یہ خمیر زدہ ہونے کے بعد دودھیا تیزابی مادّہ پیدا کرتا ہے۔ خوش ذائقہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ مویشیوں اور بھیڑوں میں آنتوں کے امراض کے واقعات کو گھٹانے میں بھی مدد دیتا ہے، جو مال مویشیوں سے بننے والی مصنوعات کے لیے من چاہے معیار کی ایک اور ضمانت ہے۔ما ویڑونگ، خطے کے ایک اور دیہاتی، نے 20 سے زیادہ بھیڑیں اور 5 مویشی پال رکھے ہیں۔ وہ چارے کی بھاری قیمت کی وجہ سے سردیوں میں انہیں صرف سوکھی گھاس دیتا تھا۔ حیرانگی کی بات نہیں کہ اس کے مویشی گھونگھے کی رفتار سے آگے بڑھ رہے تھے۔

اس سال ما ویڑونگ نے اس تجربے کے لیے حکومت کے مطالبے پر لبیک کہا اور اپنی تمام پانچ مو فصل کو اناج سے چارے کی کاشت میں بدل دیا۔ چارے کے سبز تھیلے ایک قطار میں رکھے ہیں اور بہت خوبی سے میدانوں میں جمع کیے گئے ہیں۔ “مکئی چارے کی قیمت 0.35 یوآن فی کلوگرام ہے، اور ایک مو زمین کی کاشت 1,300 یوآن دے سکتی ہے، جو مکئی بیچنے سے کہیں زیادہ ہے جو 1,000 یوآن سے بھی کم دے پاتی ہے۔”جنہوں نے فصل کو بیچنے کے بجائے اسے اپنے جانوروں کے چارے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔”مویشی اس چارے سے تقریباً ایک ماہ تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اس طرح ایک مو زمین 2,000 یوآن پیدا کر سکتی ہے، “ما ویڑونگ نے اپنے منصوبے کے بارے میں کہاکہ ترویج کے تقریباً دو سالوں کے بعد “اناج پر مشتمل فصل سے چارے کی جانب منتقلی” کے تجربے نے مقامی افراد میں آہستہ آہستہ قبولیت اور تائید حاصل کی ہے۔ چارے اور مال مویشیوں کی کثرت کی بدولت لِنسیاکی مقبول صنعت مقدار کے لحاظ سے بڑی تیزی سے بڑھی ہے، جو کسانوں کی آمدنی میں اضافے کا اہم محرّک بن رہی ہے۔