مرزا غالب کو یقین تھا کہ وہ بادہ خوار نہ ہوتے تو لوگ انہیں ولی مان لیتے اور ہمیں یہ یقین ہے کہ مسٹر چرچل غاصب نہ ہوتے تو ولی سمجھے جاتے۔ انہوں نے کہا تھا کہ انڈیا کو پچاس سال تک آزادای نہ دی جائے، انڈیا کو قبل ازوقت آزاد کردیا گیا تو یہاں کا بااثر طبقہ حکمران بننے کے بعد عوام کا جینا اجیرن کردے گا اور سانس لینے کے علاوہ ہر کام پر ٹیکس لگائے گا۔ وزیراعظم عمران خان کا طرز حکمرانی اور ان کی پالیسیوں کو دیکھ آنجہانی مسٹر چرچل کے تدبر اور ان کی دور اندیشی کی داد دینا پڑتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان ہر وہ کام کرنے پر کمربستہ ہیں جو حکومت کی آمدنی میں اضافہ کرسکے۔ موصوف نے سگریٹ نوشی کو حرام قرار دے ڈالا، حالاں کہ ایسے بہت سے شوق ہیں جو واقعی حرام قرار دیے جاسکتے ہیں اور وہ شرعاً بھی حرام ہیں مگر عمران خان کی نظر ان پر نہیں پڑتی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ شراب نوشی پر گناہ ٹیکس کیوں نہیں لگاتے، کوک نوشی پر ٹیکس نہیں لگاتے، فلم بینی پر ٹیکس کیوں نہیں لگاتے، جہیز ٹیکس کیوں نہیں لگاتے، فضول خرچی پر ٹیکس کیوں نہیں لگاتے اور بھی ایسے بہت سے کام ہیں جن پر گناہ ٹیکس لگایاجاسکتا اور اس کے بعد ثواب ٹیکس بھی لیا جاسکتا ہے جیسے نماز اور روزہ ٹیکس۔
غریب آدمی کا شوق سگریٹ نوشی ہے کہ یہی اس کی د سترس میں ہے، وہ تھوڑی دیر کے لیے یکسوئی حاصل کرنے کے لیے سگریٹ نوشی کرتا ہے، حکومت اس سہولت سے بھی غریب آدمی کو محروم کرنے پر تُلی ہوئی ہے، بہت سے ایسے شاعر اور ادیب ہیں جو شراب نوشی اور شباب نوشی کی استطاعت نہیں رکھتے، وہ یکسوئی حاصل کرنے کے لیے سگریٹ اور چائے نوشی سے اپنا دل بہلاتے ہیں۔ حکومت سگریٹ نوشی پر ٹیکس لگانا چاہتی ہے، ممکن ہے چائے نوشی پر بھی گناہ ٹیکس لگادیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے علم میں جوں ہی یہ بات آئی کہ فلپائن کی حکومت سگریٹ نوشی پر گناہ ٹیکس وصول کرتی ہے اس نے بھی گناہ ٹیکس لگانے کا تہیہ کرلیا۔ وزیراعظم عمران خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پنجاب حکومت نے بھی صفائی ٹیکس لگانے کا فیصلہ کرلیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ پہل کون کرتا ہے۔ پنجاب حکومت کے سینئر وزیر بلدیات کا کہنا ہے کہ حکومت صفائی کے لیے کوڑا کرکٹ اٹھانے والے کنٹریکٹر کو بائیس ارب روپے دینے کی حالت میں نہیں۔ یہ پیسے عوام ہی کو دینا ہوں گے۔ موصوف نے یہ بھی کہا ہے کہ بجٹ خسارہ بہت زیادہ ہے اور مہنگائی کی رفتار اس سے بھی زیادہ ہے اور مشکل یہ ہے کہ حکومت ان سے لڑنے کی سکت نہیں رکھتی۔ سوال یہ ہے کہ جو کمپنیاں کوڑے کرکٹ سے بجلی پیدا کررہی ہیں انہیں کوڑا کرکٹ اٹھانے کا معاوضہ کیوں دیا جارہا ہے؟ اصولاً تو ان سے کوڑے کرکٹ کا معاوضہ لینا چاہیے، شاید نئی اندھیر نگری میں یہ ممکن نہیں۔ سگریٹ نوشی کو حرام قرار دلانے کے لیے حکومت کو عدالت جانا پڑے گا جس کے لیے کسی نامی گرامی وکیل کی خدمات حاصل کرنا ضروری ہے اور ایسا وکیل لاکھوں نہیں کروڑوں روپے میں دستیاب ہوگا۔ اس ضمن میں ہمیں ایک ایسے دل جلے کی یاد آرہی ہے جو کئی برسوں سے نیب کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے، ایک بار اس نے ہمیں یہ لطیفہ نما حکایت سنائی تھی، وہ لطیفہ یا حکایت کچھ یوں ہے کہ ایک بھینس جنگل میں بے تحاشا بھاگ رہی تھی کسی چوہے کی نظر پڑی تو اس نے چیخ کر پوچھا۔ اے بھینس بنّو! کیوں بھاگ رہی ہو، گرپڑیں تو اُٹھانا مشکل ہوجائے گا۔ بھینس نے بھاگتے بھاگتے، ہانپتے کانپتے جواب دیا کہ نیب ساتھیوں کو پکڑ رہی ہے چوہے نے کہا۔ اے بنّو! سٹھیا تو نہیں گئی ہو، نیب والے ہاتھیوں کو پکڑ رہے ہیں تم ہاتھی نہیں بھینس ہو۔ بھینس نے کہا۔ نیب نے ہاتھی سمجھ کر پکڑ لیا تو مجھے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ میں ہاتھی نہیں بھینس ہوں کم از کم بیس سال لگ جائیں گے۔ یہ سن کر چوہا سٹپٹا گیا۔ کہنے لگا میں تو بیس سال تک زندہ بھی نہیں رہوں گا مگر میں جیل میں مرنا نہیں چاہتا اور سودے بازی کے لیے میرے پاس سودا بھی نہیں اور پھر۔۔۔ اس نے بھی بھاگنے ہی میں عافیت جانی۔