سولہ دسمبر….. جو بھلائے نہیں بھولتا

166

16 دسمبر 1971ء کو بیتے 47 سال ہوگئے۔ ہم اسے نصف صدی بھی کہہ سکتے ہیں کہ صرف 3 سال ہی تو نصف صدی کے مکمل ہونے میں باقی ہیں۔ وقت پَر لگا کر اُڑ جاتا ہے لیکن یادیں دلوں میں بسیرا کرلیتی ہیں اور منظر نگاہوں میں ٹھیر جاتے ہیں، وہ اوجھل ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ 16 دسمبر وہ دن تھا جس نے پاکستان کے وجود کو دولخت کردیا تھا، ایک ایسا سانحہ جس کی مسلمانوں کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی بے مثال جدوجہد اور عدیم النظیر قربانیوں کے نتیجے میں قائم ہوا تھا۔ یہ دُنیا کا واحد ملک تھا جو دو حصوں پر مشتمل تھا، دونوں حصوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا جس پر ایک دشمن ملک موجود تھا وہ دشمن ملک جس کی آنکھوں میں پاکستان کا وجود ابتدا ہی سے کانٹے کی طرح کھٹک رہا تھا۔ پاکستان کے دونوں حصوں کو درحقیقت اسلام کے اَنمٹ رشتے نے ایک دوسرے سے جوڑ رکھا تھا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور یہی وہ عقیدہ تھا جس نے مشرقی اور مغربی پاکستان کو ایک لڑی میں پرو رکھا تھا۔ سقوسط مشرقی پاکستان کے بہت سے سیاسی، عسکری اور اقتصادی اسباب بیان کیے جاتے ہیں اور ان میں حقیقت بھی ہے لیکن سب سے اہم اور بنیادی سبب یہ ہے کہ دونوں حصوں کو جوڑنے والے اسلام کے رشتے پر اپنوں نے بھی تیشے چلائے اور دشمن نے بھی لسانی اور علاقائی عصبیت پھیلا کر اس پر کاری وار کیا، پھر اپنی فوجی قوت کے ذریعے پاکستان کا نقشہ بدل دیا۔ وقت بڑے بڑے زخم مندمل کردیتا ہے۔ 16 دسمبر کا زخم بھی وقت کے ساتھ ساتھ بھر سکتا تھا لیکن ہمارے کینہ پرور دشمن نے ایسا نہ ہونے دیا۔ اس نے مشرقی پاکستان کو بنگلادیش تو بنادیا لیکن اسے ایک آزاد مسلمان ملک کی حیثیت سے برقرار نہ رہنے دیا اور نہ ہی پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات کی بحالی کا روادار ہوا۔
بنگلادیش میں اس وقت شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی حسینہ واجد کی حکومت ہے لیکن بالواسطہ طور پر بھارت کے گماشتے اور اس کے ایجنٹ اس ملک پر حکومت کررہے ہیں اور حسینہ واجد کی حیثیت ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں ہے۔ بھارت کسی صورت بھی بنگلا دیش کو ایک اسلامی ملک کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتا، اسی لیے وہ حسینہ واجد کے ذریعے ان سب لوگوں کو قتل کروارہا ہے جو بنگلادیش میں اسلام کی حاکمیت چاہتے ہیں، ان پر الزام یہ لگایا گیا ہے کہ جب بنگلا دیش کی تحریک جاری تھی تو ان لوگوں نے پاکستان کی حمایت کی تھی اور پاکستانی افواج کے ساتھ مل کر بنگالیوں کا قتل عام کیا تھا۔ ان لوگوں میں اکثریت جماعت اسلامی کی ہے۔ جنگی جرائم کے نام نہاد ٹریبونل کے ذریعے انہیں سزائے موت دی گئی ہے اور عالمی سطح پر صدائے احتجاج کے باوجود انہیں تختہ دار پر لٹکایا گیا ہے۔ شہدا میں جماعت اسلامی کے وہ لوگ بھی شامل ہیں جو 1971ء میں اسکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم تھے اور ان کا 1971ء کے واقعات سے کوئی تعلق نہ تھا۔ جماعت اسلامی کو اس لیے ٹارگٹ کیا گیا کہ یہی جماعت بنگلا دیش میں نفاذ اسلام کی سب سے توانا آواز تھی اور نئی مملکت میں تیزی سے مقبول ہورہی تھی۔ بھارت بنگلادیش کو ایک سیکولر ملک کے طور پر دیکھنا چاہتا تھا اس کے لیڈر برملا یہ کہہ رہے تھے کہ وہ بنگلادیش کو دوسرے پاکستان کے روپ میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ بھارت نے تو اب پاکستان کے بارے میں بھی یہ خواہش ظاہر کردی ہے کہ اگر یہ سیکولر ملک بن جائے تو اس سے دوستی ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں نام نہاد لبرل اور سیکولر عناصر بھارت کے راگ میں سُر ملاتے رہتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے سقوط مشرقی پاکستان کے سانحے پر جشن منایا تھا اور 16 دسمبر کے زخم پر نمک چھڑکا تھا۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان کا عقیدہ اور نظریہ تبدیل ہوجائے اور اسلام سے اس کا رشتہ برائے نام ہی باقی رہے۔
زندہ قومیں کبھی ماضی کی اسیر نہیں رہتیں وہ ماضی سے سبق حاصل کرکے اپنے حال کو سنوارتی اور مستقبل کو روشن کرتی ہیں۔ 16 دسمبر کا زخم بھی مندمل ہوسکتا تھا اگر بنگلادیش کی قیادت تلخیاں بھلاکر پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتی اور ناراضی ختم کرکے بھائی چارے کو لبیک کہتی۔ بنگلادیش بننے کے بعد پاکستان کی ہر حکمران قیادت نے اس بات کی پوری کوشش کی کہ ناراض بھائی کو منایا جائے، بنگلادیش کے ساتھ معمول کے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات قائم ہوں اور دونوں ملک خطے میں امن و استحکام کے لیے مل جل کر کام کریں۔ ابتدا میں اس منزل کی جانب بہت پیش رفت بھی ہوئی، خود شیخ مجیب الرحمن نے تلخ ماضی کو بھول جانے کا اعلان کیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان اس سلسلے میں سمجھوتا بھی ہوا، ان کے بعد بنگلادیش میں فوجی حکومت آئی تو اتفاق سے پاکستان میں بھی فوج کی حکمرانی تھی، دونوں فوجی حکمرانوں کے درمیان مثالی دوستی قائم ہوگئی۔ انہوں نے باہمی صلاح مشورے سے علاقائی تعاون کی تنظیم ’’سارک‘‘ کی بنیاد رکھی جس کا افتتاحی اجلاس ڈھاکا میں ہوا۔ بھارت خطے کا سب سے بڑا ملک تھا اس لیے ’’سارک‘‘ میں اسے خصوصی اہمیت دی گئی لیکن بھارت نے اسے اپنے علاقائی مفاد کے منافی سمجھتے ہوئے چلنے نہ دیا اور اب سارک کا سربراہ اجلاس بھی بھارت کی ہٹ دھرمی کے سبب منعقد نہیں ہوپارہا۔ بنگلادیش میں خالدہ ضیا کی سول حکومت کے ساتھ بھی پاکستان کے تعلقات بہت خوشگوار رہے۔ اتنے خوشگوار کہ دونوں ملکوں کے درمیان کنفیڈریشن کی تجویز بھی سر اُبھارنے لگی، بھارت اس صورت حال سے پریشان ہوگیا، بالآخر وہ شیخ مجیب الرحمن خاندان کی واحد زندہ بچی رہنے والی خاتون حسینہ واجد کو برسراقتدار لانے میں کامیاب ہوگیا۔ وہ انتقام کی آگ میں پھُنک رہی ہے اور بھارت اس سے من مانے اقدامات کروارہا ہے۔ اس نے بھارت کی شہ پر جماعت اسلامی سمیت تمام پاپولر سیاسی جماعتوں کا گلا گھونٹ دیا۔ بنگلادیش کی ہر دلعزیز سیاسی رہنما خالدہ ضیا کو نااہل قرار دے کر جیل میں ڈال دیا ہے اور جماعت اسلامی کے تمام لیڈروں کو پھانسی دے کر اپنی آمریت پکی کرلی ہے۔ اس طرح 16 دسمبر 1971ء کا زخم پھر ہرا ہوگیا ہے اور ہم بھلانا بھی چاہیں تو یہ دن نہیں بھولتا۔ بھارت بھی ہمیں یہ دن بھلانے نہیں دیتا، وہ بلوچستان میں بھی وہی کھیل کھیل رہا ہے جو سابق مشرقی پاکستان میں کھیل چکا ہے، جب کہ مقبوضہ کشمیر میں اس نے دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے، کشمیری کسی بیرونی مدد کے بغیر امن آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں وہ جب تک اپنا حق حاصل نہیں کرلیتے 16 دسمبر ہمیں خون کے آنسو رلاتا رہے گا۔