ڈاکٹر تحسین فراقی اور تہذیبوں کے درمیان مکالمہ

342

دسمبر 2018ء کے ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن میں ڈاکٹر تحسین فراقی کا ایسا مضمون شائع ہوا ہے کہ ایسا مضمون مسلم برصغیر میں دو ہی لوگ لکھ سکتے ہیں۔ احمد جاوید یا ڈاکٹر تحسین فراقی۔ مضمون کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں کہیں فلسفے کی محفل آراستہ ہے، کہیں تاریخ کی بزم سجی ہوئی ہے، کہیں ادب کا پرچم لہرا رہا ہے اور کہیں سائنس کا حوالہ موجود ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب مذہبی انسان ہیں تو مضمون میں مذہبی فکر کو تو موجود ہونا ہی تھا۔ لیکن مضمون صرف اپنے علمی تنوع کی وجہ سے اہم نہیں ہے بلکہ اس میں فکر کی ایک بلند سطح بھی موجود ہے۔ مضمون کا عنوان ہے ’’انسانیت، فساد اور صلاح کے دوراہے پر‘‘۔ غور کیا جائے تو مضمون کا عنوان بجائے خود اہم ہے۔ اس لیے کہ پوری انسانیت کا مستقبل اس سوال سے وابستہ ہے کہ انسانیت اپنے لیے فساد کا راستہ منتخب کرتی ہے یا فلاح اور صلاح کا؟۔ لیکن مضمون جتنا عمدہ ہے اس میں مسائل بھی اتنے ہی گہرے موجود ہیں۔ مثلاً ایک مسئلہ تو یہی ہے کہ ڈاکٹر صاحب چاہتے ہیں کہ تہذیبوں کے درمیان تصادم اور محاذ آرائی نہ ہو بلکہ ان کے مابین مکالمہ ہو۔ ڈاکٹر صاحب بجا طور پر یہ بھی چاہتے ہیں کہ زندگی اور دنیا میں تنوع ہو، تکثیریت ہو، مغرب کی اصطلاح میں Pluralism ہو، یک رنگی نہ ہو۔ ڈاکٹر صاحب انسانوں کے باہمی رشتوں کو دردمندی اور باہمی احترام سے بھی آراستہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اجتماعی آفاقی صحت کی بحالی کی تمنا رکھتے ہیں۔ یہ ساری خواہشات بہت نیک ہیں مگر زندگی صرف نیک خواہشات سے نہیں بدلتی۔ زندگی کو بدلنے کے لیے زندگی کو سمجھنے اور سمجھ کر اسے بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر یہاں سوال یہ ہے کہ بات کا آغاز کہاں سے کیا جائے؟۔
چلیے بات یہاں سے شروع کرتے ہیں کہ تہذیبوں کے درمیان مکالمہ ہونا چاہیے۔ بلاشبہ ایسا ہی ہونا چاہیے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہ دنیا اپنی اصل میں مغرب کے غلبے کی دنیا ہے۔ مغربی تہذیب غالب ہے اور باقی تمام تہذیبیں مغلوب۔ تاریخ کا عمومی تجربہ یہ ہے کہ غالب مغلوب کو حکم دیتا ہے اس سے مکالمہ نہیں کرتا۔ اس لیے کہ مکالمہ مساوی الحیثیت افراد، قوموں یا تہذیبوں میں ہوتاہے۔ اصولاً مکالمے کو حق، خیر، جمال، محبت اور علم کی بنیاد پر بروئے کار آنا چاہیے مگر مغرب نے جو دنیا تخلیق کی ہے اس میں مکالمے کا امکان طاقت اور سرمائے کی برابری سے وابستہ ہے۔ بلاشبہ مغرب مکالمے کی بات ضرور کرتا ہے مگر مغرب کے سیاست دان ہوں یا مذہبی پیشوا، مغرب کے دانش ور ہوں یا صحافی وہ ’’خود کلامی‘‘ پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ خود کلامی کے ایسے عاشق ہیں کہ مکالمے کی میز پر بیٹھ کر بھی وہ خود کلامی ہی کرتے ہیں۔ سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد اکثر مغربی ممالک میں مکالموں کے لیے جایا کرتے تھے اور بلاشبہ مسلمانوں کو کبھی بھی مکالمے سے گریز نہیں کرنا چاہیے مگر ایک دن ہم نے قاضی صاحب سے عرض کیا کہ اہل مغرب کے ساتھ آپ کے مکالموں کا سلسلہ وقت اور توانائی کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں۔ قاضی صاحب نے اس وقت ہماری بات سے اتفاق نہ کیا مگر تین چار سال بعد ایک دن انہوں نے کہا کہ تم ٹھیک کہتے تھے۔ اہل مغرب چاہتے ہیں کہ ہم کسی نہ کسی طرح ان کی رائے کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کرلیں۔ غور کیا جائے تو یہ طاقت کی حرکیات یا Power Dynamics کا مسئلہ ہے۔ جس کے پاس طاقت ہوتی ہے وہی درست بھی ہوتا ہے، وہی صاحب علم بھی ہوتا ہے، وہی صاحب عقل بھی ہوتا ہے، وہی کلام کرنے والا بھی ہوتا ہے۔ جس کے پاس طاقت نہیں ہوتی اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا۔ چناں چہ وہ کلام کرنے والا بھی نہیں ہوتا وہ صرف سامع ہوتا ہے، ساکن سامع یعنی Passive Listener۔ انسانی تاریخ میں صرف اسلام ایسا مذہب اور اُمت مسلمہ ایسی امت ہے جس نے طاقت ور ہونے کے باوجود دوسروں کا احترام کیا۔ ان کو مکالمے کے لائق خیال کیا۔ حقیقی معنوں میں اس اصول کو تسلیم کیا کہ زندگی ہے تو اس میں تنوع ضرور ہوگا۔
مسلمان طاقت ور تھے اور انہوں نے یہودیوں کو پناہ دی اور ان کا تحفظ کیا۔ مسلمانوں اور یہودیوں کے تعلقات خراب ہوئے تو یہودیوں کی عہد شکنی اور سازشوں کی وجہ سے مسلمان طاقتور تھے اور انہوں نے عیسائیوں کو اپنے برابر میں بٹھایا۔ اس کی سب سے بڑی مثال مسلم اسپین ہے۔ مسلم اسپین پر مسلمانوں نے600 سال حکومت کی مگر اسپین میں یہودی اور عیسائی دونوں پھلتے پھولتے رہے۔ البتہ جیسے ہی مسلم اسپین میں مسلمانوں کی طاقت کا سورج غروب ہوا عیسائیوں نے مسلمانوں کے سامنے تین امکانات رکھ دیے۔ عیسائی ہوجاؤ، بھاگ جاؤ یا قتل ہونے کے لیے تیار رہو۔ بدقسمتی سے عیسائی اسپین میں یہ تینوں امکانات بروئے کار لائے۔ کچھ مسلمان عیسائی ہوگئے، کچھ بھاگ نکلے اور باقیوں کو قتل کردیا گیا۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی۔ یہ اتنی بڑی مدت تھی کہ مسلمان اپنی طاقت کا صرف پانچ فی صد بھی استعمال کرتے تو پورا ہندوستان آج مسلمان ہوتا۔ مگر مسلمانوں نے طاقت کے استعمال کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ البتہ جیسے ہی اقتدار ہندوؤں کے ہاتھ میں آیا۔ انہوں نے بھارت میں 20 کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کا جینا حرام کردیا۔ انہوں نے مسلمانوں کے مذہب پر حملے شروع کررکھے ہیں، انہوں نے مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے، انہوں نے مسلمانوں کی معیشت کو ہڑپ کرلیا ہے، انہوں نے مسلمانوں کی سیاست کو اُچک لیا ہے۔ طاقت اپنا کھیل کھیل رہی ہے اس فضا میں ’’مکالمے‘‘ کی نہیں صرف ’’بقا‘‘ کی جدوجہد ہوسکتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ہندوؤں نے صرف 71 سال کی قلیل مدت میں مسلمانوں کو ’’بقا‘‘ کے مسئلے سے دوچار کیا ہے، ایک تہذیب کے پاس ایک ہزار سال تھے، دوسری تہذیب کے پاس 71 سال ہیں، مگر اسلامی تہذیب نے ایک ہزار سال کی ’’قدرت‘‘ کو جذب کرکے دکھا دیا اور دوسری تہذیب سے 71 سال کی ’’قدرت‘‘ ہضم نہیں ہورہی۔ کیا اس منظرنامے میں کسی حقیقی مکالمے کا امکان ہوسکتا ہے؟۔
مسلمانوں نے یہودیوں پر صدیوں حکومت کی مگر نہ ان کے مذہب کو دبایا نہ ان کی تہذیب کو کچلا لیکن اسرائیل نے صرف 70 سال میں فلسطینیوں کو ہر اعتبار سے ’’شودر‘‘ بنادیا ہے۔ اس وقت فلسطینیوں کے سامنے بھی اصل سوال بقا ہی کا ہے۔ اسرائیل نے برسوں مذاکرات کی بات کی۔ اوسلو میں مذاکرات ہوئے اور اوسلو امن سمجھوتا وجود میں آیا تو معلوم ہوا اسرائیل مذاکرات نہیں کررہا تھا وہ تو صرف خود کلامی کررہا تھا۔ بعدازاں اسرائیل اپنی خود کلامی سے بھی مکر گیا، تو کیا اسلامی تہذیب اور یہودی تہذیب کے درمیان کوئی مکالمہ ہوسکتا ہے؟۔
بلاشبہ تنوع زندگی کا حسن ہے مگر تنوع کی میراث بھی صرف مسلمانوں کے پاس ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصول کا خزانہ بھی صرف مسلمانوں کے پاس ہے۔ مسلمان کہاں نہیں گئے؟ مگر وہ جہاں گئے انہوں نے تہذیبی و ثقافتی تنوع تخلیق بھی کیا اور اسے تسلیم بھی کیا۔ مسلمان برصغیر میں آئے اور یہاں انہوں نے ’’ہند اسلامی تہذیب‘‘ کا تجربہ خلق کیا۔ ہند اسلامی تہذیب اصول کی سطح پر عربی تہذیب کی طرح ہے مگر اصول کے اظہار میں وہ عربی تہذیب سے مختلف ہے۔ مسلمان اسپین گئے تو وہاں انہوں نے عرب اور برصغیر سے مختلف تہذیبی و ثقافتی تجربہ خلق کیا۔ یہ تجربہ بھی اصول کی سطح پر دیگر مسلم ثقافتوں کے مماثل تھا مگر اظہار کی سطح پر مختلف تھا۔ مسلمان جہاں گئے انہوں نے نہ کسی کی زبان کو چھیڑا نہ بیان کو چھیڑا، نہ کسی کے لباس پر انگلی اٹھائی، نہ کسی کے رہن سہن پر انہیں کوئی اعتراض ہوا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اگر کسی کو واقعتاً تہذیبوں کے درمیان مکالمہ درکار ہے اور وہ تنوع کو فروغ پاتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے تو اسے اسلام اور اسلامی تہذیب کے عالمگیر غلبے کے لیے دعا بھی کرنی چاہیے اور کوشش بھی۔ آپ کہیں گے اس طرح تو تہذیبوں کے درمیان تصادم کی راہ ہموار ہوگی۔ بلاشبہ پہلے مرحلے میں ایسا ہی ہوگا مگر اسلام کے غالب آتے ہی ہر طرف مکالمے اور تنوع کا راج ہوگا۔ اسلام اور اسلامی تہذیب کے غالب آئے بغیر دنیا میں حقیقی مکالمے اور حقیقی تنوع کی بات کرنا دانش ورانہ ٹیبل ٹینس کھیلنے کے سوا کچھ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی دوسرے مذہب اور کسی دوسری تہذیب کے پاس وہ داخلی گنجائش اور وہ بصیرت ہی نہیں جومکالمے اور تنوع کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
اس کی ایک مثال جدید مغربی تہذیب ہے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی نے اپنے مضمون میں دو مغربی دانش وروں کا یہ فقرہ نقل کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے۔
’’دنیا مغربی تہذیب میں ڈھلنے نہیں جارہی نہ مغرب ہی اور نہ باقی ممالک دنیا بننے جارہے ہیں۔ مستقبل بہرحال تنوع اور کثیر جہتی کا ہے‘‘۔
مسئلہ یہ ہے کہ دنیا مغربی تہذیب میں ڈھلنے جا نہیں رہی وہ مغربی تہذیب میں ڈھل چکی۔ چناں چہ مستقبل تنوع اور کثیر جہتی کا نہیں بلکہ مستقبل یک رنگی اور یک جہتی کا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مغرب کے خواب ساری دنیا کے خواب ہیں۔ مغرب کا سیاسی ماڈل ساری دنیا کا سیاسی ماڈل ہے، مغرب کا معاشی نظام ساری دنیا کا معاشی نظام ہے، مغرب کا لباس ساری دنیا کا لباس ہے۔ مغرب کا ادب ساری دنیا کا ادب ہے، مغرب کی موسیقی ساری دنیا کی موسیقی ہے، مغرب کی فلم ساری دنیا کی فلم ہے، مغرب کی مصوری ساری دنیا کی مصوری ہے، مغرب کے علوم ساری دنیا کے علوم ہیں، مغرب کے فنون ساری دنیا کے فنون ہیں، مغرب کے کھیل ساری دنیا کے کھیل ہیں،
مغرب کی غذا ساری دنیا کی غذا ہے، مغرب کی زبانیں ساری دنیا کی زبانیں ہیں، مغرب کا تعقل ساری دنیا کا تعقل ہے، مغرب کا فن تعمیر ساری دنیا کا فن تعمیر ہے، مغرب کی طاقت پرستی ساری دنیا کی طاقت پرستی ہے، مغرب کی دولت پرستی ساری دنیا کی دولت پرستی ہے۔ اس منظرنامے میں تنوع کیا تنوع کا امکان تک نہیں ہے۔ اس منظرنامے میں بھی مکالمے کا کوئی امکان نہیں اور مکالمہ ہوگا تو مغرب اور مغرب کے درمیان میز کے ایک طرف بھی مغرب ہوگا اور دوسری طرف بھی مغرب۔
ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب نے اپنے مضمون میں امریکا کے حوالے سے ایڈورڈ سعید کی رائے پیش کی ہے۔ ایڈورڈ سعید نے کہا تھا۔
’’امریکا کو یہ زعم ہے کہ جو کچھ ہم چاہتے ہیں دنیا بھی وہی چاہتی ہے‘‘۔
بدقسمتی سے امریکا کیا پورے مغرب کا مسئلہ اس سے بھی بڑا ہے۔ مغرب یہ نہیں کہتا کہ جو کچھ ہم چاہتے ہیں دنیا بھی وہی چاہتی ہے بلکہ مغرب کہتا ہے جو کچھ ہم چاہتے ہیں دنیا کو بھی وہی کچھ چاہنا چاہیے۔ اس لیے کہ ہم جو کچھ چاہتے ہیں صرف وہی چاہے جانے کے لائق ہے۔ مثلاً جدید مغرب کفر چاہتا ہے تو ساری دنیا کو کفر ہی کا طالب ہونا چاہیے اس لیے کہ کفر ہی طلب کے لائق ہے۔ مثلاً مغرب کے نزدیک وحی توہمات میں سے ہے اور عقل اصل چیز ہے چناں چہ دنیا کو بھی چاہیے کہ وہ وحی کو توہمات میں شمار کرلے اور عقل سے محبت کرے۔ مگر دیکھنے میں آتا ہے کہ جب اسلامی تحریکیں کسی بھی سبب سے سہی مغرب کی جمہوریت کو پسند کرنے لگتی ہیں تو مغرب کو یہ بات بہت بُری لگتی ہے اور وہ اسلامی تحریکوں کے خلاف سازش کرنے لگتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے ترکی کے نوبل انعام یافتہ ادیب اورہان پاموک کا یہ فقرہ نقل کیا ہے۔
’’جب ایک مصنف اپنے گھر میں آزاد نہیں تو پھر کوئی مصنف آزاد نہیں‘‘۔
بات ٹھیک ہے مگر اس بات کو ذرا پھیلا کر بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ جب قوم اپنے ملک میں آزاد نہیں تو کوئی قوم آزاد نہیں۔ جب اپنے گہوارے میں ایک تہذیب آزاد نہیں تو کوئی تہذیب آزاد نہیں۔ یہ وہ دلیل ہے جو اورہان پاموک کے آئیڈیل مغرب اور اس کے تصور آزادی کے پرخچے اُڑا کر رکھ دے گی۔ اس لیے کہ مغرب فرد کی آزادی کی بات تو کرتا ہے مگر وہ قوموں اور تہذیبوں کی آزادی کے سخت خلاف ہے۔ بدقسمتی سے اس حوالے سے بھی قوموں اور تہذیبوں کے درمیان کسی حقیقی مکالمے کا کوئی امکان نہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے مضمون میں دریدا کا ذکر خیر بھی موجود ہے۔ دریدا ردِ تشکیل یا Deconstructionism کے فلسفے کا سب سے بڑا آدمی سمجھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ وہ Authentic Believer یا سچے مستند صاحب ایمان انسان کا بڑا قائل تھا اور اس نے کہا ہے کہ ایک Authentic Believer ہی دوسرے مذاہب کی بہترین تفہیم کرسکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے دریدا کے حوالے سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں یورپ کی متجّریا Stereotyped تناظر کی ساخت شکنی کو ضروری خیال کرتا تھا۔ دریدا نے بے شک یہی کہا ہوگا مگر دریدا کا بنیادی ’’عقیدہ‘‘ یہ ہے کہ لفظ کے معنی متعین نہیں ہیں اور لفظ کے معنی دائمی التوا کا شکار ہیں۔ اب اگر ایسا ہے تو دنیا میں نہ کوئی Authentic ہے نہ Believer ہے۔ نہ دوسرے مذہب کی کوئی معروضی تفہیم ہے۔ چناں چہ دریدا کے نظام خیال میں قوموں، تہذیبوں یا دو افراد کے درمیان کیا فرد کا خود اپنے آپ سے بھی مکالمہ ممکن نہیں۔ اس لیے کہ لفظ کے معنی متعین ہی نہیں بلکہ وہ دائمی التوا کا شکار ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اسلام کے عالمگیر غلبے تک انسانیت کسی نہ کسی عنوان سے فساد اور فلاح کے دوراہے پر کھڑی رہے گی۔