کرپشن ہی نہیں شراب بھی حرام ہے

220

احسان دانش نے کہا تھا
نہ بت کدوں میں چراغاں نہ مے کدوں میں خروش
تمام شہر مسلماں ہے دیکھتے کیا ہو
لیکن صاحبو! درحقیقت ایسا نہیں ہے اس ملک میں جہاں آبادی کی اکثریت مسلمانوں کی ہے مے کدوں میں وہ جوش وخروش ہے وہ شور وغل ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ پاکستان دنیا کے 56اسلامی ممالک میں واحد ملک ہے جہاں قانونی طور پر شراب بنانے کی اجا زت ہے۔ پا کستان کے قانون کے تحت شراب بنانے پر پا بندی نہیں ہے۔ پاکستان میں تین فیکٹریاں ہیں جو قانونی طور پر شراب بناتی ہیں جو راولپنڈی، کراچی اور کوئٹہ میں واقع ہیں۔ مری بروری پاکستان کی سب سے بڑی بروری ہے جو سالانہ 50ہزار ہیکٹو لٹر یعنی 50لاکھ لٹربیئر اور چار لاکھ گیلن یعنی تقریباً 18لاکھ لٹر لکر بناتی ہے۔ کراچی اور کوئٹہ میں قائم دو بروریز کی بنائی جانے والی شراب کی مقدارعلیحدہ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان دونوں کی پیداوار بھی چار لاکھ گیلن سالانہ سے زیادہ ہی ہوگی۔ یہ شراب اقلیتوں کے پچاس لاکھ افراد کے پینے پلانے کے نام پر بنائی اور فروخت کی جاتی ہے۔
سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے شراب، اس کے پینے والے، اس کے پلانے والے، اس کے خریدنے والے، اس کے بیچنے والے، اس کے کشید کرنے والے، اس کے اٹھانے والے اور جس کی طرف لے جائی جائے ان سب پر لعنت کی ہے۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے کہ اس کی قیمت کھانے والے پر بھی لعنت کی ہے۔ (سنن ابی داؤد)
قرآن مجید میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ قرار دیتے ہیں:
اے ایمان والو! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور جوئے کے تیر، یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہٰذا ان سے بچو، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض کے بیج ڈال دے، اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے۔ اب بتاؤ کہ کیا تم (ان چیزوں سے) باز آجاؤ گے۔ یہ سورہ المائدہ کی آیت 90 اور 91 کا ترجمہ ہے۔ ان آیات کریمہ میں شراب کی حرمت کو جس موثر انداز میں بیان کیا گیا ہے کسی حرام اور ممنوع چیز کی حرمت کا اعلان اس انداز سے نہیں کیا گیا۔ قرآن کے اصل الفاظ کو دیکھیں۔ شراب کو ’’رجس‘‘ کہا گیا ہے۔ رجس کے معنی نجاست، گندگی اور ناپاک کے ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ نجس اور گندگی شریعت مطہرہ اور عقل سلیم کے نزدیک حرام ہے۔ شراب کو ’’عمل الشیطن‘‘ یعنی شیطانی کام فرمایا ہے اور شیطان کا ہر عمل حرام ہے۔ حکم ہے ’’فاجتنبوہ‘‘ یعنی ان سے بچو اور اللہ تعالیٰ جس کے اجتناب، جس سے بچنے کا حکم دیں وہ حرام ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’لعلکم تفلحون‘‘ تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔ جس چیز کے اجتناب سے فلاح اور کامیابی منسوب ہو اس کا کرنا حرام ہے۔ ارشاد ہے ’’انما یرید الشیطن ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضا: شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنی اور بغض کے بیج ڈال دے‘‘۔ اور جو چیز مسلمانوں میں بغض اور عداوت کا سبب بنے تو وہ حرام ہے۔ قرآن کریم کا بیان ہے ’’و یصدکم عن ذکر اللہ و عن الصلوۃ: اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے‘‘ اور جس چیز کے ذریعے شیطان مسلمانوں کو اللہ کی یاد اور نماز سے روک دے وہ چیز حرام ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’فھل انتم منتھون‘‘ یہ امر کے معنی میں ہے یعنی رک جاؤ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جس چیز سے رکنے کا حکم فرمائیں تو اس چیز کا کرنا حرام ہے۔
ملاحظہ کیجیے اللہ کی آخری کتاب کس کس انداز سے شراب کا حرام ہونا بیان کر رہی ہے لیکن ہمارے قانون ساز اداروں میں کیا ہورہا ہے۔
ہوا یوں کہ اس ہفتے منگل کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں اقلیتی رکن ڈاکٹر رمیش کمار نے تمام مذاہب کے افراد سمیت ملک میں شراب پر مکمل پابندی کا بل پیش کیا اور کہا کہ ہندو مذہب میں بھی شراب پر پابندی ہے۔ ڈپٹی اسپیکر نے بل کے بارے میں رائے لی۔ پی پی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی کے ارکان نے بل کی مخالفت کی۔ ڈپٹی اسپیکر نے رائے شماری کرائی۔ حکومت اور اپوزیشن اتحاد کے نتیجے میں بل مسترد ہوگیا۔ حکومت کے ڈھولچی فواد چودھری نے یہ بل پیش کرنے پر رمیش کمار کو برا بھلا کہتے ہوئے ان پر سستی شہرت کی طلب کا الزام عائد کیا۔ بات یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی شریعت میں شراب کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے لیکن چوں کہ شریعت کا یہ حکم حکومت کے بیانیے جس میں کرپشن کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا جارہا ہے سے مطابقت نہیں رکھتا اس لیے قابل عمل نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان کے آئین اور قانون کا ماخذ اگر قرآن اور سنت ہوتے توکیا قانون ساز ایوانوں میں ایسی بحث ہونا ممکن تھی۔ جب پاکستان قائم ہوا تو ہمیں آئین اور قوانین برطانوی راج سے وراثت میں ملے تھے جو یقیناًقرآن وسنت کو سامنے رکھ کر نہیں بنائے گئے تھے۔ پاکستان کے قیام کے بعد بجائے اس کے کہ ہم ان قوانین کو اٹھاکر پھینک کر دیتے اور ہمارے حکمران علمائے کرام کے ساتھ بیٹھ کر صرف اور صرف قرآن وسنت سے اس ملک کا آئین اور قوانین اخذ کرتے۔ قرآن اور سنت کو اس ملک کا آئین اور قانون بناتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ حالاں کہ اسلامی شریعت میں ماضی کے تمام واقعات، موجودہ دور کے تمام مسائل اور آئندہ کی تمام مشکلات کے بارے میں احکامات موجود ہیں، قوانین موجود ہیں۔ اسلام کو دیگر عقائد، نظریات، قوانین اور نظاموں کی پیوند کاری کی ضرورت نہیں۔ اسلام عقائد اور نظام ہائے حیات پر مبنی ایک مکمل نظریہ ہے جو صرف وحی کی پیروی کرنے اور باقی تمام عقائد، نظاموں اور قوانین کو رد کرنے کاحکم دیتا ہے۔
ہمارے یہاں جو غیر اسلامی قوانین ہیں 70برس سے انہیں اسلامی بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن 70کیا اگر 700 برس بھی گزر جائیں تو یہ قوانین اسلامی نہیں ہو سکتے۔ ٹرک کی بتی ہے جس کے پیچھے ہمیں لگادیا گیا ہے۔ کیوں کہ یہ نظام اسمبلیوں میں بیٹھے لوگوں کو قوانین بنانے کا حق دیتا ہے۔ اور ان لوگوں کی جو حالت ہے شراب کے حوالے سے ایک واقعے سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کئی برس پہلے کی بات ہے تحریک انصاف کے سیکڑوں کارکن اسلام آباد کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اسی دوران تحریک انصاف کے ایک لیڈر کی کار سے شراب کی ایک بوتل برآمد ہوئی ہے۔ متعلقہ سیاست دان کا کہنا تھا کہ اس میں شراب نہیں شہد تھا۔ بہر حال شام کو ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں اسی سیاست دان نے شر کاء سے ایک سوال سے پوچھا ’’تم میں کون ہے جو شراب نہیں پیتا؟‘‘ جواب میں مکمل خاموشی طاری تھی۔ جب ایسے لوگ اسمبلیوں میں جائیں گے تو آپ کا کیا خیال ہے وہ قرآن وسنت کے مطابق شراب کے حرام ہونے اور اس کے بنانے اور فروخت کرنے پر پا بندی کے قوانین بنائیں گے؟ جب کہ یہ نظام انہیں نہ تو اس بات پر مجبور کرتا ہے اور نہ ہی اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ قرآن وسنت کو ماخذ بنا کر قوانین بنائیں۔ یا بالفاظ دیگر اسلام کے مطابق قوانین بنائیں۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا ممکن تھا کہ گزشتہ حکومت میں سندھ اسمبلی کو جرات ہوتی کہ وہ اسلام قبول کرنے پر پابندی کا قانون بنانا تو در کنار اس کا سوچ بھی سکتی۔ یہ نظام، ہمارا آئین اور قانون نہ تو اسلام سے اخذ ہیں اور نہ ہی اسلام سے متصادم قانون سازی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں کیوں کہ یہ بجا ئے خود غیر اسلامی ہیں۔