حسد

261

ہمارے سیاسی امراض کی اصلاح کا بیڑا تو ماشاء اللہ ہمارے میڈیا نے رضا کارانہ طور پر اٹھا رکھا ہے، یہ الگ بات ہے کہ روزانہ کے دھواں دار مباحثوں کے بعد جب وہ اپنے پروگرام کی بساط لپیٹتے ہیں تو ناظرین کے دامن میں فکری انتشار، بے یقینی اور قنوطیت کے سوا باقی کچھ نہیں بچتا، سو ہم آج اصلاحِ ذات اور پاکیزگئ نفس کی بات کریں گے۔ رسول اللہ ؐ تعلیمِ امت کے لیے اپنے خطباتِ مبارَکہ میں اکثریہ کلمات ارشاد فرماتے تھے: ’’ہم اپنے نفس کی شرارتوں سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں‘‘۔ انسان کو جو اَخلاقی اور نفسانی (Psychic) عوارض لاحق ہوتے ہیں، ان میں سے ایک حسد ہے، اسے ہم اردو میں ’’جلنا‘‘ اور انگریزی میں ’’Jealousy‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے مقابل جو پسندیدہ صفت ہے، اسے عربی میں ’’غِبْطَہ‘‘ اور اردو میں ’’رشک‘‘ کہتے ہیں۔
کسی کو جمال، مال، صحت، علم یا جاہ ومنصب جیسی نعمتوں میں پھلتا پھولتا دیکھ کر یہ تمنا کرنا کہ اُس سے یہ نعمت چھن جائے اور مجھے مل جائے، حسد کہلاتا ہے۔ یہ اتنی قبیح نفسانی صفت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ’’سُوْرَۃُ الْفَلَق‘‘ میں حاسد کے حسد سے پناہ مانگنے کی تعلیم فرمائی ہے۔ نعمتیں عطا کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ کسے نعمت عطا کرے اور کسے نعمت سے محروم کردے یا کون نعمت کا حق دار ہے اور کون نہیں ہے اور یہ کہ کس کے لیے اُس کی عطائیں بطورِانعام ہیں اور کس کے لیے آزمائش اور امتحان ہیں۔
حاسد دَراصل اللہ کی تقدیر اور تقسیم پر اعتراض کرتا ہے، قرآنِ کریم میں ہے: (۱) ’’کیا یہ لوگ اُس چیز پر حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا فرمائی ہے، (النساء: 54)‘‘۔ (۲) اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر جو فضیلت دی ہے، اس (کے چھن جانے) کی تمنا نہ کرو، (النساء: 32)‘‘۔ ایسی تمنا تو وہ کرے، جس کا یہ ایمان ہو کہ اللہ کے خزانے میں اتنا ہی تھا، جو فلاں شخص کو دے دیا، اب میرے لیے کچھ نہیں بچا۔ مومن کا اعتقاد یہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے خزانے بے حد وبے حساب ہیں، وہ جتنا زیادہ کسی کو عطا کرے، اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں آتی۔ پس مومن کو یہ تمنا کرنی چاہیے کہ اے اللہ! یہ بھی تیری نعمتوں میں پھلتا پھولتا رہے اور مجھے بھی اپنے فضل وکرم سے نواز دے، چنانچہ فرمایا: ’’اور اللہ سے اُس کے فضل کا سوال کرو، (النساء: 32)‘‘۔
مشرکینِ مکہ نے اعتراض کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو نبوت عطا کرنی ہی تھی تو مکہ اور طائف کی بستیوں میں سے کسی بڑے سردار کو عطا کی جاتی، ظاہری اعتبار سے وسائل نہ رکھنے والے عبداللہ وآمنہ (رضی اللہ عنہما) کے یتیم فرزند کو کیوں عطا کردی گئی؟، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور انہوں نے کہا: یہ قرآن ان دو شہروں (مکہ اور طائف) کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ نازل کیا گیا؟ (اللہ نے فرمایا:) کیا یہ (کفار) آپ کے ربّ کی رحمت کو تقسیم کرتے ہیں؟، ہم نے (اپنی حکمت سے) ان کے درمیان دنیاوی زندگی میں معیشت کو تقسیم کیا ہے، (الزخرف: 31-32)‘‘۔ اس آیت سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت سے نعمتوں کو تقسیم فرماتا ہے، اس کے لیے وہ کسی کو جوابدہ نہیں ہے۔
رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے، جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے اور صدقہ گناہوں کو ایسے دھو ڈالتا ہے، جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے اور نماز مومن کا نور ہے اور روزہ جہنم سے (نجات کے لیے) ڈھال ہے، (سنن ابن ماجہ)‘‘۔ آپ ؐ نے ایک طویل حدیث میں فرمایا: ’’مومن کے دل میں ایمان اور حسد دونوں بیک وقت جگہ نہیں پاسکتے، (سنن نسائی)‘‘۔ آپ ؐ سے سوال ہوا: ’’تمام لوگوں میں افضل کون ہے، آپ ؐ نے فرمایا: ’’ہر وہ شخص جو دل کا نرم اور زبان کا سچا ہو، صحابہ نے عرض کیا: زبان کا سچا ہونے کو تو ہم پہچانتے ہیں، یہ ’’مَخْمُوْ مُ الْقَلْب(نرم دل)‘‘ کو ن ہے، آپ ؐ نے فرمایا: وہ جو متقی ہو، اس کا دل پاکیزہ ہو، اس نے کوئی گناہ اور سرکشی نہ کی ہو اور وہ اپنے دل میں کسی کے لیے کینہ اور حسد نہ رکھے، (ابن ماجہ)‘‘۔
یہودِ مدینہ سیدالمرسلین ؐ کو پہچان چکے تھے کہ یہی وہ نبی ہیں جن کی بشارت سارے انبیائے کرام علیہم السلام دیتے چلے آئے ہیں، ان کی نشانیاں تورات وانجیل میں موجود ہیں اور وہ نبیِ آخر الزمان کے منتظر بھی تھے، نیز قرآن نے یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے عہد کے کفار کے مقابلے میں آنے والے نبیِ آخرالزمان ؐ کے وسیلے سے فتح کی دعائیں بھی مانگتے تھے۔ لیکن جب خاتم النبیین سیدنا محمد رّسول اللہ ؐ تشریف لے آئے تو صرف اس حسد کی بنا پرکہ یہ آخری نبی اور سارے انبیاء کے تاجدار بنی اسرائیل کے بجائے بنو اسماعیل میں کیوں بھیجے گئے، آپ پرایمان نہ لائے اور آپ کی نبوت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور جب ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ کتاب آئی، جو اُس آسمانی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے، جو ان کے پاس (پہلے سے موجود) ہے اور وہ اس سے پہلے (اسی نبی کے وسیلے سے) کفار کے خلاف فتح کی دعا کرتے تھے، پس جب وہ ان کے پاس آگئے، جن کو انہوں نے (تورات میں بیان کردہ نشانیوں سے) پہچان لیا، تو انہوں نے ان کا انکار کیا، (البقرہ: 89)‘‘، نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اس نبی کو اس طرح پہچانتے ہیں، جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور اُن کا ایک گروہ جانتے بوجھتے حق کو چھپاتا ہے، (البقرہ: 146)‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ حسد اخلاقی اور اعتقادی اعتبار سے اتنی مُہلک بیماری ہے کہ اس کے باعث انسان نعمتِ ایمان سے محروم ہوجاتا ہے اور بعض اوقات ایک پوری امت اس کے نتیجے میں آخرت کی تباہی اور اور بربادی کا شکار ہوجاتی ہے۔
رسول اللہ ؐ نے تاکیداً فرمایا: ’’بدگمانی سے بچو، بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے، تم لوگوں کی پوشیدہ باتوں کا سراغ نہ لگاؤ، لوگوں کے عیوب تلاش نہ کرو، جس چیز کو خریدنے کا ارادہ نہ ہو اُس کی قیمت بڑھانے کے لیے بولی نہ لگاؤ، ایک دوسرے کے ساتھ حسد نہ کرو، ایک دوسرے کے ساتھ بغض نہ کرو، پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی نہ کرواور اے اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ، (بخاری)‘‘۔ کفار رسول اللہ ؐ کے ساتھ حسد بھی کرتے تھے، مختلف طریقوں سے ایذا بھی پہنچاتے تھے اور نظر بد بھی لگاتے تھے، جبرائیلِ امین آئے اور یہ دعائیہ کلمات پڑھ کر آپ کو دم کیا:
’’بِاسْمِ اللّٰہِ أَرْقِیکَ، مِنْ کُلِّ شَیْءٍ یُؤْذِیکَ، مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ وَعَیْنٍ حَاسِدَۃٍ، بِاسْمِ اللّٰہِ أَرْقِیکَ وَاللّٰہُ یَشْفِیْکَ‘‘۔ ترجمہ: ’’میں اللہ کے نام سے ہر اس چیز سے جو آپ کو ایذا پہنچائے، ہر انسان اور حسد کرنے والی نگاہ کے شر سے حفاظت کے لیے آپ کودم کرتا ہوں، میں اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں، اللہ آپ کو شفا عطا فرمائے، (ترمذی)‘‘۔
حسد ہی وہ مرض ہے جس میں شیطان مبتلا ہوا، اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو مسجودِ ملائک بنا کر جو فضیلت عطا کی، وہ اس سے برداشت نہ ہوئی، اسی نفسانی مرض کے نتیجے میں وہ اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہوا اور اللہ کی رحمت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگیا۔ آج ہمارے گھرانوں اور ماحول میں یہ اَخلاقی بیماری بہت عام ہے۔ حاسد کے حسد سے پناہ مانگنے کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے اسی لیے عطا فرمائی کہ حاسد آتشِ انتقام میں جَل کر کوئی بھی قدم اٹھا سکتا ہے۔ لیکن زیادہ تر صورتوں میں حاسد اپنا ہی نقصان کرتا ہے، اپنے ہی اعمالِ خیر کو برباد کرتا ہے اور وہ اندر ہی اندر حسد کی آگ میں جلتا اور کڑھتا رہتا ہے، دوسرے کا نقصان کم ہی کر پاتاہے، اسی لیے اللہ کے نیک بندے یہ دعا کیا کرتے ہیں: ’’اے اللہ! مجھے حاسد نہ بنا، محسود بنا‘‘۔ محسود اسے کہتے ہیں جس سے حسد کیا جائے اور ظاہر ہے کہ حسد اسی سے کیا جائے گا، جس میں کوئی کمال ہو، خوبی ہو، صورت وسیرت کا جمال ہو، اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی نعمتوں سے نوازا ہو۔ پس حسد کی آگ میں جلنے سے بہتر ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت، نعمت اور فضل وکرم کا سوالی بن کر رہے، اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں، اس کی عطا لامحدود ہے، نعمت ملے تو شکر کرے، مشکل کا سامنا ہو تو صبر کرے۔
سیدنا انس بن مالک بیان کرتے ہیں: ہم رسول اللہ ؐ کی مجلس میں بیٹھے تھے: آپ نے فرمایا: ابھی ایک جنتی شخص تمہارے سامنے نمودار ہوگا، پھر انصار کا ایک شخص نمودار ہوا، اس کی ڈاڑھی سے وضو کے قطرات ٹپک رہے تھے، پھر دوسرے اور تیسرے دن یہی واقعہ رونما ہوا۔ جب نبی ؐ مجلس سے اٹھے تو عبداللہ بن عَمرو اس شخص کے پیچھے چل پڑے اور اس سے کہا: میری میرے والد سے ناچاقی ہوگئی ہے اور میں نے قسم کھائی ہے کہ میں تین دن تک گھر میں داخل نہیں ہوں گا، سو آپ تین دن تک مجھے اپنے گھر میں ٹھکانا دے دیں، اس نے کہا: ٹھیک ہے، سیدنا انس بیان کرتے ہیں: عبداللہ نے بتایا، اس نے تین راتیں اس شخص کے ہاں گزاریں، اس نے قیام الیل بھی نہیں کیا سوائے اس کے کہ جب وہ بستر پر لیٹتا تو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہتا حتیٰ کہ فجر کی نماز کے لیے اٹھتا، البتہ میں نے اس سے خیر کے سوا کوئی بات نہیں سنی۔ جب تین راتیں گزر گئیں اور مجھے اس میں کوئی غیر معمولی بات نظر نہ آئی تو میں نے اس سے کہا: میرے اور میرے باپ کے درمیان کوئی ناراضی نہیں تھی، لیکن میں نے رسول اللہ ؐ سے تین بار تمہارے جنتی ہونے کے بارے میں سنا تو میں نے ارادہ کیا کہ میں آپ کے پاس ٹھیر کر آپ کے عمل کو دیکھوں اور اس کی پیروی کروں، تو میں نے کوئی غیر معمولی عمل نہیں دیکھا، سو بتائیے کہ آپ کس خوبی کی بنا پر زبانِ نبوت سے جنتی قرار پائے، اس نے بتایا: میں ویسا ہی ہوں جیسا آپ نے دیکھا، بس اتنی سی بات ہے کہ میں اپنے دل میں کسی مسلمان کے لیے کینہ اور حسد نہیں رکھتا، عبداللہ نے کہا: یہی تو وہ عظیم خصلت ہے جس پر پورا اترنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے، (مسند احمدً)‘‘۔